جواب
آیت وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰى(النسائ:۳ ) پر تفصیل کے ساتھ تفہیم القرآن میں نوٹ لکھ چکا ہوں ۔اس کے اعادے کی حاجت نہیں ۔ آپ اسے ملاحظہ فرمالیں ۔جہاں تک خود اس آیت کی تفسیر کا تعلق ہے،اس کے کئی معنی ہوسکتے ہیں اور صحابہ وتابعین سے منقول ہیں ۔ مثلاً ایک معنی یہ بھی ہیں کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ یوں انصاف نہیں کرسکتے تو ایسی عورتوں سے نکاح کرلو جن کے شوہر مرچکے ہیں اور چھوٹے چھوٹے یتیم بچے چھوڑ کر گئے ہیں ۔یہ معنی اس لحاظ سے زیادہ دل کو لگتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں کہ یہ سورت جنگ اُحد کے بعد نازل ہوئی تھی،اور اس جنگ میں بہت سے مسلمان شہید ہوگئے تھے ۔لیکن یہ بات کہ اسلا م میں چار بیویوں سے نکاح کرنے کی اجازت ہے،اور یہ کہ بیک وقت چار سے زیادہ کی اجازت نہیں ہے،اور یہ کہ اس فرمان کا کوئی تعلق یتامیٰ کے معاملے سے نہیں ہے، محض اس آیت سے نہیں نکلتی بلکہ نبیﷺ کی اس قولی وعملی تشریح سے معلوم ہوتی ہے جو آپﷺ نے ان لوگوں کو جن کے نکاح میں چار سے زیادہ عورتیں تھیں ،حکم دے دیا کہ وہ صرف چار رکھ لیں اور اس سے زائد جس قدر بھی ہوں ، انھیں چھوڑ دیں ۔ حالاں کہ ان کے ہاں یتامٰی کا کوئی معاملہ درپیش نہ تھا۔ نیز آپﷺ کے عہد میں بکثرت صحابہ نے چار کی حد کے اندر متعدد نکاح کیے اور آپﷺ نے کسی سے یہ نہ فرمایا کہ تمھارے لیے یتیم بچوں کی پرورش کا کوئی سوال نہیں ہے،اس لیے تم اس اجازت سے فائدہ اٹھا نے کا حق نہیں رکھتے۔ اسی بِنا پر صحابہؓ سے لے کر بعد کے ادوار تک اُمت کے تمام فقہا نے یہ سمجھا کہ یہ آیت نکاح کے لیے بیک وقت چار کی حد مقرر کرتی ہے جس سے تجاوز جائز نہیں کیا جا سکتا، اور یہ کہ چار کی اجازت عام ہے، اس کے ساتھ کوئی قید نہیں کہ یتامٰی کا کوئی معاملہ بھی درمیان میں ہو۔ خود حضور ﷺ نے متعدد نکاح کیے اور کسی میں یتیموں کے مسئلے کا دخل نہ تھا۔
لونڈیوں کے بارے میں آپ یہ جو تجویز پیش کرتے ہیں کہ ایک شخص کو لونڈیاں تو بلاقید تعداد رکھنے کی اجازت ہوتی مگر تمتع کے لیے ایک یا دو کی حد مقرر کردی جاتی، اس میں آپ نے صرف ایک ہی پہلو پر نگاہ رکھی ہے، دوسرے پہلوئوں پر غور نہیں فرمایا۔ تمتع کے لیے جو حد بھی مقرر کی جاتی، اس سے زائد بچی ہوئی عورتوں کے مسئلے کا کیا حل تھا؟کیا یہ کہ وہ مرد کی صحبت سے مستقل طور پر محروم کردی جاتیں ؟یا یہ کہ انھیں گھر کے اندر اور اس کے باہر اپنی خواہشات نفس کی تسکین کے لیے ناجائز وسائل تلاش کرنے کی آزادی دے دی جاتی؟ یا یہ کہ ان کے نکاح لازماً دوسرے لوگوں سے کرنے پر مالکوں کو ازروے قانون مجبور کیا جاتا اور قیدی عورتوں کو سنبھالنے کی ذمہ داری ڈالنے کے علاوہ ایک اور ذمہ داری ان پر یہ بھی ڈال دی جاتی کہ وہ ان کے لیے ایسے شوہر تلاش کرتے پھریں جو لونڈیوں کو نکاح میں لینے پر راضی ہوں ؟
آپ کے تیسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ لونڈی سے تمتع کے لیے شریعت میں یہ قید نہیں ہے کہ وہ اہل کتاب میں سے ہو۔ اور یہ قید عقل کی رو سے بھی نہیں ہونی چاہیے تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ مصلحتیں آدھی سے زیادہ فوت ہوجاتیں جن کی بِنا پر اسیران جنگ کو (تبادلہ نہ ہوسکنے کی صورت میں ) افراد کی ملکیت میں دینے کا طریقہ پسند کیا گیا تھا اور قیدی عورتوں سے ان کے مالکوں کو تمتع کی اجازت دی گئی تھی۔کیوں کہ اس صورت میں صرف وہ عورتیں مسلم سوسائٹی کے اندر جذب کی جاسکتی تھیں جو کسی اہل کتاب قوم میں سے گرفتار ہوکر آئی ہوں ۔ غیر اہل کتاب سے جنگ پیش آنے کی صورت میں مسلمانوں کے لیے پھر یہ مسئلہ حل طلب رہ جاتا کہ ان میں سے جو عورتیں قید ہوں ، ان کو دارالاسلام کے لیے فتنہ بننے سے کیسے بچایا جائے؟ (ترجمان القرآن ، جون ۱۹۵۶ء)