تہمت والی گالیاں

بعض مرد حضرات غصے میں عورتوں کو گالیاں دیتے ہیں۔ بعض گالیاں تہمت والے انداز کی ہوتی ہیں۔ کیا وہ بہتان کے زمرے میں آئیں گی؟

جواب

میاں بیوی کا رشتہ پیار ومحبت کا ہوتا ہے۔ دونوں کو ایک دوسرے سے جسمانی اور روحانی سکون ملتا ہے۔ دونوں مل کر تمدّن کی ترقی میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے سایۂ عاطفت میں بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ شوہر گھر سے باہر جاکر معاشی جدّو جہد کرتا ہے، تاکہ اس کے بیوی بچے اطمینان اور سکون کی زندگی گزاریں، بیوی گھر میں شوہر کے آرام و آسائش کا خیال رکھتی ہے۔ ہر ایک خود تکلیف اٹھا کر دوسرے کو راحت پہنچانے میں لگا رہتا ہے۔ دونوں اپنے فرائض پر نظر رکھیں اور اپنی ذمے داریاں ادا کریں تو گھر جنت نظیر بن جاتا ہے۔

اس معاملے میں مرد کا کردار اعلیٰ اور اس کی ذمے داری بڑھ کر ہے، اس لیے کہ اسے گھر کا منتظم اور نگراں بنایا گیا ہے۔ چنانچہ اسے تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے

وَعَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ۝۰ۚ فَاِنْ كَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰٓى اَنْ تَكْرَہُوْا شَـيْــــًٔـا وَّيَجْعَلَ اللہُ فِيْہِ خَيْرًا كَثِيْرًا              (النساء۱۹)

’’ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو، مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو۔‘‘

حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے خطبہ میں صحابہ کرام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا

اَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَائِ خَیْراً فَاِنَّمَا ھُنَّ عَوَانٌ عِنْدَکُمْ۔

(ترمذی۱۱۶۳، ابن ماجہ۱۸۵۱)

’’لوگو! خبردار، عورتوں کے ساتھ بہتر معاملہ کرنے کی میں تم کو تاکید کرتا ہوں۔ اس لیے کہ وہ تمھارے پاس قیدیوں کے مثل ہیں۔‘‘

اس حدیث میں عورتوں کو ’قیدیوں‘ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس میں بڑی بلاغت پائی جاتی ہے۔ عورت اپنا گھر بار، ماں باپ، بھائی بہن چھوڑ کر آتی ہے اور اپنے آپ کو شوہر اور اس کے گھر والوں کے حوالے کر دیتی ہے تو وہ زیادہ الفت و محبت، دل جوئی، ہم دردی اور حسنِ سلوک کی مستحق ہے۔

بعض گھروں میں عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا۔ انھیں خادمہ کی حیثیت دی جاتی ہے اور گھر کے چھوٹے بڑے تمام کام اس پر لاد دیے جاتے ہیں۔ اس کے ایک ایک کام کو خوردبین لگا کر دیکھا جاتا ہے اور معمولی سی غلطی یا کوتاہی پر اسے سخت سست کہا جاتا ہے۔ بسااوقات یہ معاملہ اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا، بلکہ اس کے ماں باپ اور خاندان کو بھی لپیٹ لیا جاتا ہے۔ فساد تو اس وقت انتہا کو پہنچ جاتا ہے جب ان حرکتوں کا صدور شوہر کی جانب سے بھی ہونے لگتا ہے۔ وہ بیوی کو حقیر سمجھتا ہے۔ بات بات پر اسے ٹوکتا ہے اور اس کے کاموں میں خامیاں نکالتا ہے۔ وہ اسے برا بھلا کہنے اور گالم گلوچ کرنے سے بھی باز نہیں رہتا۔ جب یہ سب کچھ ہونے لگتا ہے تو گھر جہنم کدہ بن جاتا ہے۔

معمولی معمولی باتوں پر غصے کا اظہار کرنا، برا بھلا کہنا اور گالیاں دینا کسی مومن کا شیوہ نہیں۔ قرآن و حدیث میں اس سے روکا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَلَا تَلْمِزُوْٓا اَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۝۰ۭ    (الحجرات۱۱)

’’آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو۔‘‘

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے

لَیْسَ المؤمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا بِاللَّعَّانِ وَلَا الفَاحِشِ البَزِیِّ۔

(ترمذی۱۹۷۷)

’’مومن نہ بہت زیادہ طعنے دینے والا ہوتا ہے نہ بہت زیادہ لعنت ملامت کرنے والا اور نہ وہ فحش گو اور بد زبان ہوتا ہے۔‘‘

طعن و تشنیع اور بد زبانی کا معاملہ کرنا ہر ایک کے ساتھ بُرا ہے، لیکن جب یہ سب کچھ بیوی کے ساتھ کیا جانے لگے تو اس کی شناعت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ بیوی میں کچھ کم زوریاں یا خامیاں ہوں تو بھی ان کا ذکر کرکے اسے طعنے دینا پسندیدہ نہیں، لیکن اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جن کا کبھی بیوی نے ارتکاب ہی نہ کیا ہو تو اس کا شمار بہتان میں ہوگا، جسے حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہے۔

جو عورتیں اپنے شوہروں کی جانب سے ایسے ناپسندیدہ رویے کا سامنا کریں، انھیں چاہیے کہ صبر کا دامن تھامے رہیں، اپنی زبان پر قابو رکھیں اور شوہر وں یا ان کے گھر والوں کے بارے میں کوئی نازیبابات نہ کہیں۔ بد گوئی کرنے والے کا وبال اس کے سر ہوگا اور وہ صبر اور برداشت کا اجر پائیں گی۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے

وَ اِنِ امْرَوءٌ شَتَمَکَ وَعَیَّرَکَ بِمَا یَعْلَم فَلَا تُعَیِّرْہُ بِمَا تَعْلَمُ فِیْہِ فَإنَّمَا وَبَالٌ ذٰلِکَ عَلَیْہِ               (ابو داؤد۴۰۸۴)

’’کوئی شخص تمھیں گالی دے یا تمھارے کسی عیب پر تمھیں عار دلائے تو تم اس کے کسی عیب پر اسے عار نہ دلاؤ۔ اس کا وبال اس کے سر ہوگا۔‘‘

اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر عورت پر کوئی غلط الزام لگایا جا رہا ہے تو وہ خاموش رہے اور اسے قبول کرلے، بلکہ اسے پورا حق ہے کہ وہ حسبِ موقع متانت کے ساتھ وضاحت کردے کہ جو الزام اس کے سر منڈھا جا رہا ہے، وہ اس سے بری ہے۔