جواب
یہ بات قطعاً غلط ہے کہ عربی زبان میں لفظ قطع کے معنی فیصلہ کرنے کے ہیں ۔ لغت کی کسی کتاب سے اس کا ثبوت پیش نہیں کیا جا سکتا۔ جس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اس میں قَاطِعَۃً اَمْراً کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں ۔قطع کا لفظ امر کے ساتھ تو بے شک عربی محاورے میں کسی معاملے کا فیصلہ کرنے کے معنی دیتا ہے، لیکن محض قطع سے یہ مفہوم ہرگز نہیں نکلتا۔ یہ ایسی ہی تأویل ہے جیسے بعض لوگوں نے دیکھا کہ ضَرْب فِی الْاَرضْ کے معنی زمین میں چلنے اور سفر کرنے کے ہیں تو انھوں نے یہ سمجھ لیا کہ محض لفظ ضَرْب کے معنی بھی یہی ہیں اور فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ ( البقرہ:۶۰ ) کا مطلب یہ لے لیا کہ ہم نے موسیٰ ؑ سے کہا اپنا عصا لے کر چٹان پر چڑھ جا۔
سورئہ الحج میں یہ لفظ جس آیت میں وارد ہوا ہے وہ ایک سلسلہ بیان کا حصہ ہے جو رکوع ۲ کے آغاز سے چلا آ رہا ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ لوگوں میں سے کوئی تو ایسا ہے جو حق و باطل کی سرحد پر رہ کر اللّٰہ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اسے فائدہ ہوا تو مطمئن ہو جاتا ہے اور اگر کوئی آفت آگئی تو الٹا پھر جاتا ہے اور ایک ایک آستانے پر ماتھا رگڑنے لگتا ہے جہاں کسی کے پاس بھی نفع یا نقصان پہنچانے کے اختیارات نہیں ہیں ۔ اس کے برعکس جو لوگ ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں ، اللّٰہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ درحقیقت یہ اختیار اللّٰہ ہی کا ہے کہ جو کچھ چاہے کرے۔ اس کے بعد فرمایا گیا: مَنْ كَانَ يَظُنُّ اَنْ لَّنْ يَّنْصُرَہُ اللہُ فِي الدُّنْيَا وَالْاٰخِرَۃِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَى السَّمَاۗءِ ثُمَّ لْيَقْطَعْ فَلْيَنْظُرْ ہَلْ يُذْہِبَنَّ كَيْدُہٗ مَا يَغِيْظُ ¡ ( الحج:۱۵)
تفہیم القرآن میں اس کی ترجمانی اس طرح کی گئی ہے: ’’جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللّٰہ دنیا اور آخرت میں اس کی کوئی مدد نہ کرے گا اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے، پھر دیکھ لے کہ آیا اس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کرسکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے۔‘‘ اس میں گمان کرنے والے شخص سے مراد وہی شخص لیا گیا ہے جو کنارے پر رہ کر خدا کی عبادت کرتا ہے اور اسی کا یہ گمان قرار دیا گیا ہے کہ اللّٰہ اس کی کوئی مدد نہ کرے گا۔ اس کے بعد آگے کے مضمون کا یہ مطلب خود واضح ہو جاتا ہے کہ آستانوں پر جانا تو درکنار، اگر ہوسکے تو آسمان تک پہنچ کر اس میں شگاف ڈال کے بھی دیکھ لے، کیا خدا کی جو تقدیر اسے ناگوار ہے اسے وہ بدل سکتا ہے؟
اب یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اکابر علما کے ترجموں میں سے کسی میں بھی ثّمَّ لْیَقْطَعْ کا وہ مفہوم نہیں لیا گیا ہے جو آپ لے رہے ہیں ۔
شاہ ولی اللّٰہ صاحبؒ کا ترجمہ یہ ہے: ’’پس باید کہ بیاویز درسنے بجانب بالا، بازباید کہ خفہ شودپس درنگرد آیا دورمی کند ایں تدبیر اور چیزے را کہ بخشم آوردہ۔‘‘
شاہ رفیع الدین صاحب: ’’پس چاہیے کہ کھینچ لے جاوے ایک رسی طرف آسمان کے، پھر چاہیے کہ کاٹ ڈالے، پھر دیکھے کیا لے جائے گا،مکر اس کا اس چیز کو کہ غصے میں لاتی ہے اسے۔‘‘
شاہ عبدالقادر صاحبؒ: تو تانے ایک رسی آسمان کو، پھر کاٹ ڈالے، اب دیکھے کچھ گیا اس کی تدبیر سے اس کے جی کا غصہ۔‘‘
مولانا اشرف علی صاحبؒ: ’’تو اس کو چاہیے کہ ایک رسی آسمان تک تان لے، پھر (اس کے ذریعے سے آسمان پر پہنچ کر اگر ہوسکے) اس وحی کو موقوف کرا دے۔ تو پھر اب غور کرنا چاہیے آیا اس کی یہ تدبیر، اس کی ناگواری کی چیز کو (یعنی وحی کو) موقوف کرسکتی ہے۔‘‘
مفسرین کے جو اقوال امام رازیؒ اور علامہ آلوسیؒ نے نقل کیے ہیں وہ بھی دیکھ لیجیے۔
(۱) مسلمانوں میں سے ایک گروہ مشرکین کے خلاف اپنی شدت غیظ کی بنا پر اللّٰہ کی طرف سے اپنے رسول اور اپنے دین کی مدد آنے میں دیر لگتی دیکھ کر سخت بے چین ہو رہا تھا۔ اس پر فرمایا گیا کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ اللّٰہ اپنے رسولؐ کی مدد نہ کرے گا، وہ بڑی سے بڑی کوشش کرکے دیکھ لے، حتیٰ کہ آسمان تک کسی رسی کے ذریعے سے قطع مسافت کرسکتا ہو تو وہ بھی کر دیکھے، کیا اس کی یہ تدبیر خدا کی طرف سے نصرت آنے میں اس تاخیر کو رفع کرسکتی ہے جس پر غیظ میں مبتلا ہے۔
(۲) کفار یہ سمجھتے تھے کہ اللّٰہ اپنے رسول کی مدد نہ کرے گا، اس لیے ان سے یہ کہا گیا کہ کسی رسی کے ذریعے سے آسمان تک قطع مسافت کرسکتے ہو تو وہ بھی کرکے دیکھ لو، کیا تم رسولؐ کے لیے اللّٰہ کی مدد آنے کو روک سکتے ہو جس پر تم جل بھن رہے ہو۔
(۳)یہ مطلب بھی اس آیت کا لیا گیا ہے کہ اگر بن پڑے تو آسمان تک پہنچ کر رسولؐ پر وحی آنے کا سلسلہ منقطع کرنے کی کوشش کر دیکھو جس کا آنا تمھیں سخت ناگوار ہے۔
(۴) بعض مفسرین نے آسمان سے مراد مکان کی چھت لی ہے اور آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ جو شخص دنیا اور آخرت میں اللّٰہ سے مدد کی امید نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ اپنے گھر کی چھت سے رسی لٹکا کر پھانسی لے لے اور دیکھے کہ آیا اس طریقے سے اس کا وہ غیظ دور ہوسکتا ہے جو اللّٰہ سے مدد نہ ملنے پر اسے لاحق ہے۔ اس قول کے قائلین قطع سے مراد سانس کی آمد و رفت کے راستے منقطع کر دینا لیتے ہیں ۔
اس سے معلوم ہوا کہ مفسرین میں سے کسی نے بھی قطع سے مراد فیصلہ کرنا نہیں لیا ہے بلکہ سب اسے حقیقی یا مجازی طور پر کاٹنے ہی کے معنی میں لیتے ہیں ۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۷۶ء)