جانور میں حصے خرید کربھی عقیقہ کیا جاسکتا ہے

ہمارے یہاں بہت سے لوگ بکرے کے بجائے بھینس وغیرہ میں حصہ خرید کرعقیقہ کیاکرتے ہیں یا دوچار لڑکوں اورلڑکیوں کے عقیقہ کے لیے ایک بڑا جانور خرید لیتے ہیں اور سب کی طرف سے عقیقہ کردیتے ہیں۔  یہ کہاں تک درست ہے؟

جواب

بیل،بھینس، یا اونٹ اور اونٹنی میں عقیقہ کے لیے حصہ لینا جائز ہے۔لیکن شرط یہ ہے کہ تمام حصوں میں کسی نہ کسی طرح تقرب الی اللہ کی نیت ہو یا اس جانور کے تمام حصے عقیقے ہی کے لیے ہوں۔  اگر کوئی ایک حصہ بھی ایسا ہواجس سے محض گوشت حاصل کرنا مقصود ہوتو عقیقہ ادا نہیں ہوگا۔مثال کے طورپر ایک اونٹ یا بیل یا بھینس میں چھ حصے قربانی کے ہوں اور ایک حصہ عقیقہ کا ہو تو قربانی بھی جائز ہوگی اور عقیقہ بھی جائز ہوگا۔یامثال کے طورپر پورے جانور میں ساتوں حصے عقیقہ کے ہوں تو اس صورت میں بھی عقیقہ ادا ہوجائے گا۔لیکن اگر پانچ حصے قربانی کے، ایک حصہ عقیقہ کا اور ایک حصہ میں نہ قربانی کی نیت ہو اور نہ عقیقہ کی، بلکہ صرف گوشت حاصل کرنے کے لیے کوئی شخص شریک ہوگیا ہو تو نہ قربانی اداہوگی اور نہ عقیقہ اداہوگا۔

آپ کے سوال میں پہلی صورت صاف نہیں ہے۔ اگرلوگ اسی شرط کے ساتھ جس کا ذکر میں نے کیا ہے حصہ خرید کرعقیقہ کرتے ہیں تو جائز ہے اور اگر شرط پوری نہ ہوتو عقیقہ ادانہ ہوگا۔آپ نے سوال میں جس دوسری صورت کا ذکر کیا ہے وہ صحیح ہے۔اس طرح عقیقہ ادا ہوجائے گا۔ یہ جواب کتب حنفیہ کو سامنے رکھ کر لکھا گیاہے۔                           (جنوری فروری ۱۹۷۶ء،ج۵۵،ش۳۔۴)