آپ نے اپریل ۱۹۶۳ء کے اشارات کے اخیر میں جس تاثر کااظہار کیاہے اور جو سوالات اٹھائے ہیں اس سے اندازہ ہوتاہے کہ آپ کے نزدیک، جماعت اسلامی، خدانخواستہ کسی نظری وعملی بحران سے دوچار ہے اور جماعت کے سوچنے والے ذہن کسی بڑی فکری انتشار میں مبتلا ہیں حالاں کہ یہ بات مبالغہ آمیز معلوم ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں یہ کہ آپ نے امیر جماعت کی تحریروں اورتقریروں کے حوالے دے کر آخرمیں اپنےجس تاثر کااظہار کیا ہے اس سے بھی ایک طرح خلجان پیدا ہوتاہے۔
جواب
میں نے اشارات کے آخر میں جو کچھ لکھا ہے، اس کی غرض صرف یہ ہے کہ ہم سب ان نکتوں کو سامنے رکھ کر اپنا جائزہ لیں جن کا ذکر اشارات کےآخری پیراگراف میں کیاگیا ہے۔ اور جس تاثر کااظہار میں نے کیا ہے وہ میرا ذاتی تاثر ہے اور عین ممکن ہے کہ اس میں شدت پیداہوگئی ہو۔
اس بات سے تو ہم میں کاکوئی شخص اختلاف نہیں کرے گا کہ نظم وضبط، نصب العین پر استقامت، ایثار وقربانی، نظام حق سے محبت اور نظام باطل سے بیزاری ونفرت، اپنے مسلک وموقف پرپختہ یقین اوراس معاملے میں دوسرے لوگوں کی خواہشات کو قبول نہ کرنے کے عزم کو معیاربناکر ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے اس کی غرض بس یہی ہے۔
امیرمحترم کے ارشادات نقل کرنے کے بعد، اظہار تاثر سے خلجان نہ ہونے چاہیے۔ میرے اشارات، ایک خط کا جواب ہیں۔ جواب دینے کی دو صورتیں تھیں۔ ایک یہ کہ خط کے ایک ایک جزوپرالگ الگ گفتگو کی جاتی اور دوسری یہ جماعت کے بنیادی نظریات وتصورات کو مکتوب نگار کےسامنے رکھ دیا جاتا کہ وہ خودان میں اپنے خیالات کا جواب پڑھ لیں۔ میں نے دوسری صورت اختیار کی ہے۔ اس کی غرض یہ ہے کہ مکتوب نگار کے علاوہ ان جیسے خیالات رکھنے والے لوگ بھی امیر محترم کے ارشادات کو سامنے رکھ کر اپنے خیالات کی اصلاح کرلیں اوراس موقف پرجمے رہیں جن کی تشریح ان ارشادات میں کی گئی ہے۔ (جون ۱۹۶۳ءج۳ش۶)