’میرے ایک دوست جماعت کے ہمدرد تھے، اب کچھ سست پڑتے جارہے ہیں۔ ان کا ایک بڑا اعتراض یہ ہے کہ جماعت میں ’صاحب قال‘ بہت ہیں لیکن صاحب حال کی بہت کمی ہے۔ صاحب تقویٰ قسم کے لوگ تو شاید ہی ہوں۔ جب میں نے صاحب حال لوگوں کی تعریف اورمعیار تقویٰ کے متعلق دریافت کیا تو وہ اس کے سواکچھ نہ بتاسکے کہ یہ چیز بیان نہیں کی جاسکتی۔بلکہ صرف محسوس کی جاسکتی ہے۔
جواب
جب آپ کے دوست یہ نہیں بتاتے کہ صاحب حال لوگ کیسے ہوتے ہیں اور تقویٰ کامعیار کیا ہے تو پھر ہمارے پاس انھیں مطمئن کرنے کا ذریعہ کیاہے؟ یہ بالکل صاف ہے کہ تقویٰ اور ’حال ‘ کے بارے میں ان کےذہن میں کوئی تصور ضرور موجود ہے جس کی روشنی میں وہ جماعت کے اندر اس کی بہت کمی پاتے ہیں۔ انھیں اس تصور کو سامنے لانا چاہیے۔ تقویٰ اور متقین کے ذکرسے قرآن کریم بھراہواہے۔ اس میں ان کی صفات واضح طورپر بتائی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ تقویٰ کے مدارج بھی متفاوت ہیں۔ اگر کسی کے ذہن میں متقین کی وہی صفات موجود ہیں جو قرآن میں پائی جاتی ہیں تو وہ آسانی سے نشان دہی کرسکتا ہے کہ فلاں شخص یافلاں افراد میں وہ صفات موجود نہیں ہیں یا کم ہیں، اور اگر قرآنی صفات کے علاوہ کچھ دوسری صفات اس نے ذہن میں رکھ لی ہیں جب بھی بتاسکتا ہےکہ فلاں باتیں جماعت کے افراد میں نہیں ہیں یا کم ہیں۔ محض یہ کہہ دینا کہ یہ چیز محسوس کی جاسکتی ہے، بتائی نہیں جاسکتی، عجیب رویہ ہے۔ فی الواقع اس چیز کو الجھن یا اعتراض سے تعبیر کرنا ہی صحیح نہیں۔ آپ اپنے دوست سے پھر پوچھیے۔ اگر وہ نہ بتائیں تودعا کے سواکوئی چارہ نہیں۔ دعااس بات کی کہ ہمارے اندروہ تقویٰ پیدا ہوجو اللہ کو مطلوب ہے اوردعا اس بات کی بھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کے دوست کی سستی کوچستی سے بدل دے۔ (نومبر ۱۹۶۲ءج۲۹ ش۵)