جماعت اسلامی ہندکی تعریف وتحسین

دنیا میں اسلام کو سربلندکرنے کےلیے جو تحریکیں چل رہی ہیں مجھے ان سب سے دل چسپی ہے۔ میں ’ دعوت‘ دہلی او ردوسرے اخبارات ورسائل کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ میں نے جماعت اسلامی ہند اور جماعت اسلامی پاکستان کے دستور بھی پڑھےہیں۔ اس سال یہاں کی جماعت نے پالیسی اور پروگرام کا جو پمفلٹ شائع کیا ہے میں نے اسے بھی پڑھا ہے۔ میں لٹریچر بھی پڑھتا رہتا ہوں۔ مجھے آپ لوگوں کی ایک حرکت سے حیرت ہوتی ہے،اس لیے یہ خط لکھ رہاہوں۔ صدق جدید میں کئی دفعہ جماعت اسلامی پاکستان کےمقابلے میں یہاں کی جماعت کی ایسی تعریف پڑھ چکا ہوں جس سے وہاں کی جماعت کی مذمت ہوتی ہے۔ لیکن نہ دعوت میں، نہ زندگی میں اس کے خلاف میں نے کوئی تحریرپڑھی۔ یہ کیا بات ہے؟ میری واقفیت تویہ ہے کہ دونوں جماعتوں کا نصب العین ایک ہے، نظریات بھی ایک ہیں، پھر ایک کی تعریف اور ایک کی مذمت کیوں ؟۱۱؍دسمبر ۱۹۶۴ء کے صدق جدید میں پھر دونوں کاذکر آیا ہے اور ایسے موقع اور ایسے انداز سے آیا ہے کہ غور کیا مگر مناسبت سمجھ میں نہ آئی۔ جین صاحب کی ایک تقریر کا اقتباس دیتے ہوئے لکھاہے

’’اورپھر فرمایا(یعنی جین صاحب نے) راشٹر یہ سیوک سنگھ، جن سنگھ، جماعت اسلامی اور مسلم لیگ جیسی فرقہ پرست جماعتوں کو دوسرے ملکوں میں برداشت نہیں کیا جاسکتا۔‘‘

یہ اقتباس دینے کےبعد مولانا دریابادی صاحب تحریر فرماتے ہیں 

’’اس حسن انصاف کو کیا کہیے جس نے دوپہلی جماعتوں کو دو پچھلی جماعتوں کے ساتھ ایک صف میں لاکھڑا کیا !....اور اتنی موٹی سی بات اب جین صاحب کو کون بتائے کہ نام کے اشتراک سے دھوکا نہ کھائیے اور ہندوستان کی جماعت اسلامی کو پاکستان کی جماعت اسلامی پرقیاس کسی طرح نہ فرمائیے۔ مسلم لیگ توخیر پھر ایک سیاسی جماعت ہے۔ لیکن ہند کی جماعت اسلامی اصلاً ایک دینی جماعت ہے اور بڑی تن دہی سے رفاہی اور تعمیری کاموں میں مصروف ہے۔‘‘

                                             (صدق جدید ۱۱؍دسمبر ۱۹۶۴ء)

کیا جین صاحب نے یا مرارجی نے یہاں کی جماعت اسلامی کو فرقہ پرست وہاں کی جماعت کے قیاس پرکہا ہے؟ پھر مولانا دریابادی کا یہ کہنا کہ یہاں کی جماعت کو وہاں کی جماعت پرقیاس نہ کیاجائے، کیا معنی رکھتا ہے؟ اور اگر وہ لوگ قیاس کریں تو غلط کیوں ہے جب کہ دونوں کا نصب العین اور مقصد ایک ہے؟ دوجماعتوں میں مشابہت نصب العین اورمقصد سے نہ ہوگی تو پھر کس چیز سے ہوگی؟ اگر جین صاحب کہیں کہ میرا قیاس صحیح ہے تو کیا جواب ہوگا؟ کیا وہاں کی جماعت عملی سیاست میں حصہ لینے کی وجہ سے فرقہ پرست ہے؟ کیا اب فرقہ پرستی کی یہ تعریف ہوگی کہ جو جماعت عملی سیاست میں حصہ لے وہ فرقہ پرست اور جو نہ لے وہ غیرفرقہ پرست؟ یہاں کی جماعت کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ وہ تعمیری اور رفاہی کام کررہی ہے۔ جس سیاق میں یہ کہاگیا ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ وہاں کی جماعت تخریبی کام کررہی ہے۔ کیا واقعی آپ لوگ وہاں کی جماعتوں کی تخریب ومذمت کی قیمت پراپنی تعریف پڑھ کر خوش ہوتے ہیں ؟ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ دریابادی صاحب دونوں جماعتوں میں اختلاف اور غلط فہمی پید اکرنا چاہتے ہیں۔ اگر اس خط کا جواب دینا ہوتو زندگی میں دیں، مجھے ذاتی جواب کی ضرورت نہیں ہے۔

جواب

یہ معلوم کرکے خوشی ہوئی کہ آپ دنیا کی ہرایسی جماعت سے دل چسپی رکھتے ہیں جو اسلام کو سربلند کرنے کی جدوجہد کررہی ہے۔ خدا کرے یہ دل چسپی ترقی کرے اور آپ عملاً بھی اس جدوجہد میں حصہ لینے لگیں۔

آپ کا یہ مطالعہ صحیح ہے کہ جماعت اسلامی ہند وپاکستان تنظیمی حیثیت سے اب دو الگ اور مستقل جماعتیں ہیں۔ لیکن دونوں کانصب العین اورمقصد بالکل ایک ہے اور دونوں ایک ہی مقصد کے لیے سرگرم عمل ہیں اور وہ ہے دین حق کی اقامتـــــــبلکہ واقعہ یہ ہے کہ اقامت دین تو پوری امت مسلمہ کا نصب العین اور مقصد حیات ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس امت کی بہت بڑی تعداد اس کا شعور نہیں رکھتی۔ جب حقیقت یہ ہے تو دنیا میں جتنی جماعتیں بھی خلوص کے ساتھ اس نصب العین کے حصول کے لیے کام کررہی ہیں ان کے درمیان رشتہ خیرخواہی، ہمدردی اورتعاون ہی کا ہوسکتاہے۔

صدق جدید میں صراحتاً یا جماعت اسلامی ہند کی تعریف کے پردے میں جماعت اسلامی پاکستان کی جو مذمت ہوتی رہتی ہے اس پر ہماری خاموشی کی وجہ وہ نہیں ہے جو آپ نے سمجھی۔ آپ نے ہم لوگوں کو اتنا کم ظرف اور احمق کیوں سمجھ لیا ہے کہ ہم جماعت اسلامی پاکستان کی تخریب وتنقیص کی قیمت پر،جماعت اسلامی ہند کی تعریف پسند کرسکتے ہیں۔ ہماری خاموشی کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ ہم مولانا عبدالماجددریابادی کے مزاج سے واقف ہیں اور ان کے جواب میں کچھ کہنا لاحاصل سمجھتے ہیں۔

باقی رہی یہ بات کہ اس طرح وہ دونوں جماعتوں میں غلط فہمی اوراختلاف پیداکرنے کی خدمت انجام دے رہے ہیں تو میں آپ کے اس خیال کی نہ تصدیق کرسکتا ہوں نہ تکذیب۔ کبھی کبھی یہ خیال ہمارے ذہن میں بھی پیداہوتاہے لیکن ہم یہ سوچ کر اس کو جھٹک دیتے ہیں کہ مولانا کی ذات گرامی اتنی پست بات سے بہت بلند ہوگی۔                                  (فروری ۱۹۵۶ءج۳۴ش۲)