جوان عورتوں کے لیے عیدگاہ جانا مناسب نہیں

,

(۱) عیدگاہ میں عورتوں کی حاضری جائز ہے یا نہیں ؟ احناف کے مسلک کے مطابق اس کا تفصیلی جواب عنایت کیجیے۔ یہ سوال صرف بحث ونظر کے لیے نہیں اٹھایا گیا ہے۔ بلکہ یہاں عیدالاضحی میں اس پر عمل بھی ہوتاہے۔ اس لیے سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔

جواب

جہاں تک میرا مطالعہ ہے مسلک حنفی میں جوان عورتوں کا عیدگاہ جانا درست نہیں ہے۔ میں یہاں فقہ حنفی کی دومشہوراور مستند کتابوں کی عبارتیں نقل کرتاہوں۔

وَلَا تَخْرُجِ الشَّوَابُّ مِنَ النِّسَاءِ فِی جَمِیْعِ الصَّلَواتِ وَاَمّا العَجَائِزُ قَالَ اَبُوحَنِیْفَۃُ رَحِمَہُ اللہ تَعَالیٰ تَخْرُج العَجُوزُ فِی العِیْدَیْنِ وَالعِشَاءِ وَالْفَجْرِ، وَلَا تَخْرُجُ فِی الْجُمُعَۃِ وَالْعَصْرِ وَ الْمَغْرِبِ،وَقَالَ اَبُویُوسف وَمُحَمّد رَحِمَھُمَا اللہُ لِلْعَجُوزِاَنْ تَخْرُجَ اِلٰی الجَمَاعَاتِ فِی جَمِیْعِ الصَّلَواتِ

(فتاویٰ قاضی خان علی ہامش عالم گیری، ج۱،ص۱۸۳)

’’جوان عورتیں کسی نماز کے لیے بھی گھر سے نہیں نکلیں گی۔ رہیں بوڑھی عورتیں تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ بوڑھی عورتیں عیدین، عشاءاور فجر کی نماز کے لیے نکل سکتی ہیں، لیکن وہ جمعہ اور عصر ومغرب کی نماز کے لیے نہیں نکلیں گی اور ابویوسف ومحمد رحمہما نے کہا کہ بوڑھی عورتیں تمام نمازوں کے لیے گھر سے نکل سکتی ہیں۔ ‘‘

ایک دوسری کتاب میں ہے

وَاَمَّا النِسْوَۃ فَھَلْ یُرَخّص لَھُنَّ اَنْ یَخْرُجْنَ فِیْ الْعِیْدَ یْن اَجْمَعُوْا عَلٰی اَنّہ لَایُرخّص لِلشّوابِ مِنْھُنّ الخُرُوْجِ فِیْ الْجُمُعَۃِ الْعِیْدَیْنِ وَشَیء مِنَ الصَّلَوۃِ

’’اوررہیں عورتیں تو کیا انھیں اجازت ہے کہ عیدین کی نماز کے لیے گھر سے نکلیں ؟ فقہائے احناف کا اس پر اتفاق ہے کہ جوان عورتوں کو جمعہ، عیدین اور کسی بھی نماز کے لیے گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘

احادیث کے مطالعے سے معلوم ہوتاہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو عیدگاہ جانے کا جو حکم دیاتھا اس کا مقصد یہ نہ تھاکہ وہ عیدگاہ جاکر نماز ادا کریں۔ یہی وجہ ہے کہ آپؐ نے حائضہ عورتوں کو بھی عیدگاہ جانے کا حکم دیاتھا حالاں کہ حائضہ پر نمازفرض نہیں ہے۔ یہ بات اس طرح بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایک طرف توآپ نے حائضہ تک کوعیدگاہ جانے کا حکم دیا اور دوسری طرف عورتوں کو جمعہ کی نماز کے لیے مسجد جانے سے منع کیا حالاں کہ نماز جمعہ فرض ہے اور عیدین کی نماز واجب یا سنت مؤکدہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہا اس پر متفق ہیں کہ عورتوں پرنہ عیدین کی نماز واجب ہے اورنہ نمازجمعہ فرض ہے۔ تیسری طرف احادیث میں ہمیں یہ بھی ملتا ہے کہ حضورؐ نے عورتوں کے لیے مسجد جاکر مردوں کی جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کو پسند نہیں فرمایا ہے بلکہ اس کے برعکس ان کے لیے گھر میں نماز ادا کرنے، بلکہ گھر کی کسی کوٹھری میں نماز ادا کرنے کو افضل اور بہتر قراردیاہے۔پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضورؐ نے عورتوں کو مسجد جانے کی اجازت دی بھی ہے تو زیب وزینت کے ساتھ نہیں بلکہ اس طرح کہ وہ مردوں کے لیے وجہ کشش نہ بنیں۔  اس کے علاوہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ عہد رسالت کے بعد عورتوں نے نبی اکرمؐ کی لگائی ہوئی شرطوں کی خلاف ورزی شروع کردی تھی یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ کو کہنا پڑا تھا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ باتیں دیکھ لیتے جواب عورتوں نے پیدا کردی ہیں تو ان کو مسجدوں میں جانے سے روک دیتے۔ میں یہاں چند حدیثوں کے ترجمے پیش کرتاہوں۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی حضرت زینب کہتی ہیں کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم عورتوں سے فرمایا تھا کہ جب تم میں سے کوئی عورت مسجد جائے تو خوشبونہ لگائے۔‘‘(مشکوٰۃ بحوالہ مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ کی ایک حدیث میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا کہ ’’جو عورت خوشبولگائے وہ نماز کے لیے مسجد نہ آئے۔‘‘ اورانھیں کی ایک حدیث میں ہے 

’’میں نے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس عورت نے مسجد جانے کے لیے خوشبو لگائی ہو اس کی نماز اس وقت تک قبول نہیں ہوتی جب تک ایسا غسل نہ کرے جیسا وہ جنابت (ناپاکی) کے بعد کرتی ہے۔‘‘

(مشکوٰۃ بحوالہ ابودائود، احمد، نسائی)

حضرت ابوموسیٰ اشعریؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا

’’ عورت جب خوشبولگاکر مردوں کی کسی مجلس سے گزرتی ہے تو وہ ایسی ہے اور ویسی ہے یعنی زانیہ ہے۔‘‘            (مشکوٰۃ بحوالہ ترمذی، ابودائود،نسائی)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی ایک حدیث سے اس مسئلے کی اصل نوعیت سامنے آتی ہے۔ وہ کہتے ہیں 

’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اپنی عورتوں کو نماز کے لیے مسجد جانے سے منع نہ کرو لیکن ان کے گھر (نماز کے لیے ) ان کے لیے بہتر ہیں۔ ‘‘

(مشکوٰۃ بحوالہ ابودائود)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان شرائط کو پورا کرکے بھی جو حضورؐ نے مسجد جانے کے لیے عورتوں پرلگائی ہیں ان کے لیے مسجد جاکر نماز ادا کرنا بہتر نہیں ہے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے گھر ہی میں نماز اداکریں۔

یہ تمام احادیث اس بات کی دلیل ہیں کہ فقہائے احناف نے بڑی بصیرت کے ساتھ یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن شرائط کے ساتھ ان کو اجازت دی گئی تھی وہ عام طورسے مفقود ہیں۔  اس لیے اب جوان عورتوں کو عیدگاہ جانے یا مسجدوں میں نماز باجماعت میں شرکت کے لیے جانے کی اجازت نہیں ہے۔

(فروری۱۹۷۱ء،ج۴۶،ش۲)