جھاڑ،پھونک،تعویذ اورگنڈے

یہاں ایک صاحب جھاڑ،پھونک،تعویذ اورگنڈے کاکام رفاہ خلق کے جذبے سے کرتے ہیں۔ جہاں تک میری اطلاع ہے کوئی اجرت ان چیزوں کی نہیں لیتے۔ان کے معمولات تقریباً وہی ہیں جو بہشتی زیور میں حکیم الامت نے اپنے معمولات کے طورپر درج کیے ہیں۔ اس سلسلے میں قرآن کریم کی جن آیات کا استعمال درج ہے ان کے سیاق وسباق اور مفہوم سے ان امراض کا کوئی تعلق بجز ایک آدھ لفظ کے نہیں ہے۔ مثلاً زچگی کے لیے سورۂ  اِذَ السَّمَآءُ انْشَقَّتْ کی ابتدائی آیتیں جن میں قیامت کا ہیبت ناک منظر پیش کیا گیا ہے۔ محض اَلْقَتْ مَافِیْھَا وَتَخَلَّتْ کی لفظی رعایت کو سامنے رکھ کر اس کام کے لیے استعمال کیاجاتاہے۔ اس تمہید کو سامنے رکھ کر درج ذیل سوالوں کا مفصل ومدلل جواب دیجیے۔

(۱) کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ میں سے کسی سے مستند طورپر یہ ثابت ہے کہ انھوں نے نیلے دھاگے پر قرآن کی آیات پھونک کرشفائے امراض یا دفع آسیب کے لیے کسی کو دیاہو،یا یہ عمل کرنے کی ہدایت فرمائی ہو؟

(۲) کیا قرآن کی آیات کوان کے اصل سیاق وسباق سے الگ کرکے اور ان کے منشاومفہوم سے قطع نظر ازالۂ امراض اور یسرولادت کے لیے استعمال کرنا صحیح ہے؟

(۳) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کن مخصوص سورتوں اورآیات کو ازالۂ امراض کے لیے جھاڑپھونک کے طورپر استعمال فرمایاہے؟

(۴) کیا جھاڑپھونک صرف کلام الٰہی کے ذریعے ہی جائز ہے؟

جواب

جھاڑپھونک اور تعویذ گنڈے دنیا کے ہر انسانی معاشرے میں رائج رہے ہیں۔ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اس وقت بھی عرب میں رائج تھےاور جس طرح ان کی پوری زندگی میں شرک اور مشرکانہ اعمال رچ بس گئے تھے اسی طرح جھاڑپھونک کے الفاظ بھی شرک وکفر سے ملوث تھے۔ احادیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدا میں حضورؐ نے جھاڑ پھونک کی ممانعت فرمادی تھی۔ لیکن جب لوگوں کے دلوں میں توحید راسخ ہوگئی تو آپ نے ایسے جھاڑ پھونک کی اجازت دے دی جس میں شرک کا کوئی اثر یا مشرکانہ کلمات نہ ہوں۔ بلکہ آپ نے اپنے قول وعمل سے جاہلیت کے مشرکانہ جھاڑپھونک کو موحدانہ جھاڑپھونک میں تبدیل کردیا۔ جھاڑپھونک کے لیے احادیث میں رقیہ کا لفظ استعمال ہواہے، جس کا ترجمہ منتر یا افسوں سے کیا جاتاہے۔ اس کی ممانعت اورپھر رخصت کے بارے میں یہاں دوصحیح حدیثیں نقل کی جاتی ہیں 
عَنْ جَابِرٍ قَالَ نَھَی رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقٰی فَجَاءَ آل عَمَروبنِ حَزْمٍ فَقَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللہِ اِنَّہٗ کَانَتْ عِنْدَنَا رُقِیّۃ نَرقِیْ بِھَا مِنَ الْعَقْرَبِ وَاَنْتَ نَھَیْتَ عَنِ الرُّقٰی فَقَالَ اعْرِضُوْھَا فَعَرَضُوْھَا عَلَیْہِ فَقَالَ مَااَریٰ بِھَا بَأسًا مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَّنَفَعَ اَخَاہٗ فَلَیَنَفَعْہٗ۔ (مشکوٰۃ، کتاب الطب والرقی بحوالہ مسلم )
’’حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک سے روک دیا تھا۔ پھر آپ کے پاس عمروبن حزم کے خاندان کے کچھ لوگ آئے اور انھوں نے کہا یا رسول اللہ ہمارے پاس ایک منتر تھا جس کے ذریعہ ہم نیش عقرب کا زہر دورکرنے کےلیے جھاڑپھونک کیا کرتے تھے۔ آپ نے فرمایا وہ منتر پیش کرو۔ انھوں نے آپ کے سامنے اسے پیش کیا۔ اسے سن کر آپ نے فرمایا مجھے اس میں کچھ حرج نظر نہیں آتا۔ تم میں سے جو شخص (اس کے ذریعے ) اپنے بھائی کو نفع پہنچاسکے اسے نفع پہنچانا چاہیے۔‘‘
اس حدیث سے تین باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ آپ نے ایسے جھاڑ پھونک سے منع فرمایاتھا جس میں شرعی اعتبار سے کوئی قابلِ اعتراض اور لائق اجتناب چیز ہو۔ دوسری یہ کہ قرآن کی آیات اور احادیث میں منقول کلمات کے علاوہ دوسرے کلمات سے بھی جھاڑ پھونک کی جاسکتی ہے۔ تیسری یہ کہ اگر جائز اور مباح جھاڑ پھونک سے کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہوتواسے فائدہ پہنچانا چاہیے۔
دوسری حدیث یہ ہے
عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِکٍ اَلْاَشْجَعِیّ قَالَ کُنَّا نَرْقِیْ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ فَقُلْنَا یَا رَسُوْلَ اللہِ کَیْفَ تَریٰ ذَالِکَ فَقَالَ اعْرِضُوا عَلٰی رُقَاکُمْ لَابَاسَ بِالرُّقٰی مَالَمْ یَکُنْ فِیْہِ شِرْکٌ۔
(مشکوٰۃ بحوالہ مسلم )
’’عوف بن مالک اشجعیؓ سے روایت ہے کہ ہم لوگ جاہلیت میں جھاڑپھونک کیا کرتے تھے توہم نے کہا یا رسول اللہ آپ اس کے بارے میں کیا حکم دیتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اپنے منترمیرے سامنے پیش کرو،(پھر آپ نے قاعدہ کلیہ کے طورپر فرمایا) منتروں میں کوئی حرج نہیں ہے جب تک ان میں شرک نہ ہو۔‘‘
شارحین حدیث نے ’شرک نہ ہو‘ کی تشریح یہ کی ہے کہ ان میں شرک وکفر کے صریح کلمات نہ ہوں اور نہ ایسے کلمات ہوں جن کے معنی ومطلب سے شرک وکفر لازم آتاہو۔ اسی حدیث کے پیش نظر علمانے لکھا ہے کہ جس جھاڑ پھونک کامعنی ومطلب واضح نہ ہو وہ جائز نہیں ہے۔ مباح صرف وہی منتر ہوگا جس کے معنی معلوم ہوں اور اس میں کوئی شرعی قباحت نہ ہو۔اس سے معلوم ہوا کہ اگرچہ کلمات قرآن وحدیث کے علاوہ دوسرے جائز ومباح کلمات سے جھاڑ پھونک جائز تو ہے لیکن اس میں سخت احتیاط کی ضرورت ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازالۂ امراض کے لیے جس جھاڑپھونک کی تعلیم دی ہے وہ اللہ تعالیٰ سے دعا اور استغاذہ کے بہترین کلمات ہیں۔ شافی مطلق اور مؤثر حقیقی اللہ تعالیٰ ہی ہے اس لیے دفع امراض کے لیے اسی کی بارگاہ میں دعا اور استغاثہ کرنا چاہیے۔ بس یہ حقیقت ہے اس جھاڑ پھونک کی جس کے کلمات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبرئیل علیہ السلام نے سکھائے ہیں۔ محدثین کرام نے اس کے لیے کتب احادیث میں مستقل ابواب لکھے ہیں۔ اس تمہید کے بعد اب میں آپ کے سوالات کے مختصر جوابات عرض کرتاہوں۔
۱- کسی بات کا ثبوت مہیا کرنے کے لیے آیات کے سیاق وسباق اورمنشاومفہوم کی رعایت ضروری اور لازمی ہے۔ لیکن ازالۂ امراض اورحصول برکت کے لیے جیساکہ آپ نے لکھا ہے صرف رعایت لفظی کافی ہے۔ ولادت کی آسانی کے لیے سورۂ انشقاق کی ابتدائی آیتوں کی تدبیرکا ذکر علامہ ابن قیمؒ نے زاد المعاد میں کیا ہے۔
۳-جہاں تک میرامطالعہ ہے سورۂ فاتحہ، سورۂ الکافرون، سورۂ اخلاص اور معوذتین (سورۂ الفلق وسورہ ٔالناس) کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھاڑ پھونک کے طورپر استعمال فرمایا ہے۔
۴-جیسا کہ اوپر دواحادیث کی تشریح میں گزرا، آیات واحادیث کے علاوہ دوسرے جائز ومباح کلمات سے بھی جھاڑ پھونک جائز ہے۔ لیکن بہتر یہ ہے کہ اس کے لیے قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سکھائے ہوئے کلمات ہی استعمال کیے جائیں۔ شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ نے اشعتہ اللمعات میں لکھا ہے کہ علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ قرآن اور اللہ تعالیٰ کے اسما وصفات اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلیم دیے ہوئے کلمات کے علاوہ کسی دوسرے مباح اور جائز کلمات سے بھی جھاڑ پھونک کرنا مکروہ نہیں ہے۔ احادیث کے مطالعہ سےیہ بھی معلوم ہوتاہے کہ اگرچہ حضورؐ نے جائز اور مباح جھاڑ پھونک کی رخصت دے دی تھی لیکن جب صحابہ کرام کو قرآنی کلمات اور نبی علیہ السلام کے سکھائے ہوئے کلمات کی تاثیر کا علم ہوگیا تو انھوں نے انھیں دونوں پراکتفا اور دوسری ہر قسم کی جھاڑ پھونک سے اجتناب کیا۔ علمانے لکھا ہے کہ جن کلمات کو پڑھ کر دم کرنا جائز ہے ان کو لکھ کر بطورتعویذ استعمال کرنا بھی جائزہے۔
(اپریل۱۹۷۰ء،ج ۴۴، ش۴)