میں جماعت اسلامی کارکن ہوں۔ آپ سے جہیز وغیرہ کے بارے میں چند باتیں دریافت کرنا چاہتا ہوں۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ جہیز کی بلکہ صحیح معنی میں تلک کی جو رسم مسلمانوں میں بھی رائج ہے اس کے تباہ کن اور قابل ترک ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ سوال اس کے بارے میں نہیں ہے بلکہ مطلقاً جہیز اور شادی کے سلسلے کی چند چیزوں کے بارے میں فقہی حکم جاننا چاہتا ہوں۔ سوالات یہ ہیں
(۱) کیا شادی کے موقع پر لڑکیوں کو اپنی خوشی سے جہیز دینارسم جاہلیت ہے؟ کیا یہ چیز مطلقاً ناجائز ہے؟ رسم جاہلیت کس کو کہتے ہیں ؟
(۲) حضرت فاطمہؓ کو شادی کے موقع پر نبی ﷺ نے جو سامان دیاتھا کیا اس کو جہیز قرار دینا بالکل غلط ہے؟ حضرت علیؓ نے جو زرہ دی تھی وہ کس لیے دی تھی؟
(۳) نکاح سے پہلے یا نکاح کے بعد کچھ نقدی، کچھ پارچہ جات، نوشاہ کو دینا، اسی طرح بارات میں کچھ افراد کو لے جانا اور لڑکی والوں کی طرف سے ان کی خاطر تواضع کرنا- کیا یہ سب چیزیں ناجائز اور رسم جاہلیت ہیں ؟
جواب
پہلے یہ دیکھ لیجیے کہ جہیز کا لفظ آیا کہاں سے؟ اور اس کا مفہوم کیا ہے؟ تو سوالات کے سمجھنے میں آسانی ہوگی- عربی لغت میں جھّز یجھّز تجھیزا کے معنی ہیں سامان مہیا کرنا، تیار کرنا۔ سامان گھر کےلیے بھی مہیا کیاجاتا ہے، دولہا دلہن کے لیےبھی، مردہ کے لیےبھی اور لشکر کےلیے بھی۔ بطور اسم عربی میں جَہاز اور جِہاز بولا جاتاہے۔ چناں چہ’ جہاز العروس‘ (دولہا دولہن کاسامان) کے الفاظ بھی مستعمل ہیں۔ یہی عربی کالفظ جَہاز اردو میں آکر جہیز بن گیا ہے۔ لفظ میں بھی تبدیلی ہوئی اور معنی میں بھی۔ اردو میں جہیز صر ف اس سامان کے لیے بولا جاتا ہے جو شادی کے وقت لڑکی کومیکے سےملتا ہے- نبی ﷺ نے حضرت فاطمہ زہراؓ کو ان کی شادی کے وقت جو چند چیزیں عنایت فرمائی تھیں ان کے لیے بھی جھّزہی کا صیغہ آیا ہے۔ غالباً اسی لیے جہیز کا لفظ اردو زبان میں اس معنی میں بولا جانے لگا اور اب یہ ایک اصطلاحی لفظ بن گیا ہے۔ حدیث میں ہے
عن عطاء بن یسار ان رسول اللہ علیہ وسلم جھّز فاطمۃ بخمیل وقربۃ ووسادۃ حشوہ اذخر (جمع الفوائد بحوالہ نسائی)
’’عطاء بن یسار سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فاطمہؓ کو ایک چادر، ایک مشکیزہ اور ایک تکیہ دیاتھا جواذخر (ایک قسم کی گھاس ) سے بھرا گیاتھا۔‘‘
علامہ شبلی نےسیرۃ النبی جلد اول میں طبقات ابن سعد اور اصابہ ابن حجر کے حوالہ سے لکھا ہے
’’شہنشاہ کو نینؐ نے سیدۂ عالمؓ کو جو جہیز دیاتھا وہ بان کی چارپائی، چمڑے کا گدا جس کے اندرروائی کے بجائے کھجور کے پتے تھے، ایک چھاگل، ایک مشک، دوچکیاں اور دو مٹی کے گھڑے۔‘‘ (سیرۃ النبی ج۱ طبع چہارم ص۳۶۷)
علامہ سید سلیمان ندویؒ نے سیرت النبی، جلددوم میں لکھا ہے
’’اور آں حضرت ﷺ نے جہیز میں ایک پلنگ اور ایک بستر دیا۔ اصابہ میں لکھا ہے کہ آپ نے ایک چادر، دوچکیاں اور ایک مشک بھی دی اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ یہی دوچیزیں عمر بھر رفیق رہیں۔ ‘‘ ( ص۴۲۸)
ان سب کو ملانے سے یہ فہرست بنتی ہے
’’ایک چادر۔ ایک مشک۔ ایک تکیہ۔ ایک چارپائی۔ ایک بستر (چمڑے کا گدا)۔ ایک چھاگل۔ دوچکیاں۔ دومٹی کےگھڑے۔‘‘
مہر کے بارے میں علامہ شبلی نعمانی ؒ نے لکھا ہے
’’آپ نے حضرت علیؓ سے پوچھا کہ تمہارے پاس مہر میں دینے کے لیے کیا ہے؟ بولے کچھ نہیں۔ آپ نے فرمایا- اور وہ حطمیہ زرہ کیا ہوئی (جنگ بدر میں ہاتھ آئی تھی)۔ عرض کی کہ وہ تو موجود ہے۔ آپ نے فرمایا، بس وہ کافی ہے۔ ناظرین کو خیال ہوگا کہ بڑی قیمتی چیز ہوگی۔ لیکن وہ اگر اس کی مقدار جاننا چاہتے ہیں تو جواب یہ ہے کہ صرف سواسو روپے۔ زرہ کے سوا اور جو کچھ حضرت علیؓ کا سرمایہ تھا وہ ایک بھیڑ کی کھال اور ایک بوسیدہ یمنی چادر تھی۔
حضرت علیؓ نے یہ سب سرمایہ حضرت فاطمہ زہراؓ کی نذر کیا۔‘‘ (سیرۃ النبی ج۱ص ۳۶۶۔۳۶۷)
سنن ابودائود میں ہے
ان علیا رضی اللہ عنہ لما تزوج فاطمۃ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ورضی عنھا أراد ان یدخل بھا فمنعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی یعطیھا شیئا فقال یا رسول اللہ لیس لی شیء، فقال لہ النبی صلی اللہ علیہ وسلم اعطھا درعک، فاعطاھا درعہ ثم دخل بھا۔ (ابودائود باب فی الرجل یدخل بامراتہ قبل ان ینقد ہاشیئا)
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جب رسول اللہ ﷺ کی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی کی اور ان کے پاس جانا چاہا تو رسول اللہﷺ نے ان سے فرمایا کہ پہلے اس کو کوئی چیز دو پھر اس کے پاس جائو۔ انھوں نے کہا یا رسول اللہ میرے پاس کچھ نہیں ہے تو آپ نے فرمایا کہ اس کو اپنی زرہ دے دو۔ انھوں نے ان کواپنی زرہ دے دی پھر ان کے پاس گئے۔‘‘
اس تفصیل کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات یہ ہیں
(۱) جہیز کو مطلقاً رسم جاہلیت یا ناجائز قرار دینا صحیح نہیں ہے۔ جاہلیت کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتاہے ایک ماقبل اسلام کے زمانے کے لیے۔ اس معنی کے لحاظ سے اس رسم کو رسم جاہلیت کہیں گے کہ اس زمانے میں وہ رسم جاری ہو، اسلام نے اس کو ممنوع قرار دے دیا ہو۔دوسرے معصیت اور ناجائز چیزوں کے لیے بھی جاہلیت کالفظ بولا جاتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے کسی رسم کو رسم جاہلیت اس وقت کہاجائے گا جب کسی چیز کے ناجائز ہونے کی کوئی شرعی دلیل موجود ہو۔ مطلقاً جہیز کو نہ پہلے معنی کےلحاظ سے رسم جاہلیت کہنا صحیح ہے اور نہ دوسرے معنی کے لحاظ سے۔ حضرت فاطمہؓ کو حضورﷺ نے جو سامان دیاتھا وہ اگرچہ ان کی ضرورت کی بناپر تھا، وہ جہیز کی کوئی رسم نہ تھی۔ لیکن علماء امت نے اس کو جہیز ہی کہا ہے۔ اور شادی کے وقت لڑکی کو کچھ سامان دینے کے لیے دلیل بنایا ہے۔ چنانچہ فقہ کی کتابوں میں جہیز سے متعلق بہت سے مسائل پر گفتگو کی گئی ہے۔ اور فتاویٰ ہند یہ عالمگیر یہ میں تو ایک مستقل فصل ’جھازالبنت‘ (بیٹی کا جہیز) کے عنوان سے موجود ہے۔ اگر یہاں کتب فقہ کے مسائل کی بحث چھیڑی جائےتو بات بہت لمبی ہوجائےگی۔
(۲) اوپر آچکا ہے کہ علماء نے اسے جہیز ہی قراردیا ہے۔ حضرت علیؓ نے زرہ مہر میں دی تھی۔
(۳) اگر یہ چیزیں بطور شرط اور جبر کے طورپر نہ ہوں اور نہ حدا عتدال سےبڑھی ہوئی ہوں تو ناجائز نہیں ہیں۔ احادیث میں دلہن کے گھر عورتوں کے آنے، دلہن کو سنوارنے، پھر اس کو شوہر کے گھر پہنچانے اور ان کی خاطر تواضع کے واقعات موجود ہیں۔ اسی طرح شادی کے موقع پرعورتوں کے گیت گانے کا بھی ثبوت ملتا ہے۔
مسئلہ کوئی بھی ہو، اعتدال وتوازن کوہاتھ سے نہ جانے دینا چاہیے۔ اس وقت مسلم معاشرے میں شادی کے موقع پر جو ’رسوم‘ جاری ہیں ان کے لیے اوپر لکھی ہوئی باتوں کو دلیل بنانا بھی غلط ہے اور مطلقاً جہیز یا بارات یا ہدیہ ودعوت کو رسم جاہلیت کہنا بھی غلط ہے۔ (نومبر ۱۹۸۲ء ج۶۹ ش۵)