۱- زید پر حج فرض ہے لیکن وہ اپنی زندگی میں ادا نہیں کرتا اورنہ بوقت انتقال اس کی وصیت کرتا ہے۔ بعد کو ورثا اہتمام کرکے اس کی طرف سے حج بدل کرواتے ہیں تو کیا مرحوم کے ذمہ کا فرض حج ادا ہوجائے گا۔ شرعی دلیل کے ساتھ جواب دیجیے۔
۲-جس شخص نے خود حج نہیں کیا ہے اس لیےکہ اس پر حج فرض نہیں ہواکیاایسا شخص حج بدل کرے تو یہ حج بدل صحیح ہوگا۔
۳- ایسے افراد کے بارے میں حکم شریعت کیا ہے جو صاحب نصاب اور صاحب استطاعت ہونے کے باوجود محض ڈر اور خوف کی بناپر خود حج کے لیے نہیں جاتے اور دوسرے کو اپنی طرف سے حج بدل کے لیے بھیج دیتے ہیں۔ کیا ان کا فرض اس طرح ادا ہوجاتاہے؟
۴- حج فرض ہے۔ اگر یہ فرض دوسروں کے ادا کرنے سے ہوسکتا ہے تو پھر نماز، روزہ اور دیگر فرائض بھی دوسروں کے ادا کرنے سےادا ہوسکیں گے۔ اس طرح ایک کاہل، فرض ناشناس اورمتمول شخص کے لیے بڑی آسانی پیدا ہوگی۔وہ اپنے زر کے زورپر بہت سے ناداروں کی خدمت حاصل کرکے سستی جنت کے مستحق ہوتے رہیں گے۔
جواب
۱- جی ہاں ہردوصورت میں حج بدل صحیح ہے۔وصیت کرجانے کی صورت میں بھی اوروصیت نہ کرنے کی صورت میں بھی اگر میت کے ورثا بطورخود حج بدل کرادیں تو میت کا حج ادا ہوجائے گا۔ صحاح ستہ میں صحیح احادیث موجود اور مشہور ہیں جن سے حج بدل کا مسئلہ اخذ کیاگیا ہے۔
صحیح بخاری کی ایک حدیث کاترجمہ یہ ہے
’’حجۃ الوداع میں قبیلہ خثعم کی ایک عورت نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ میرے والد پرحج ایسی حالت میں فرض ہواہے کہ وہ بہت بوڑھے ہوچکے ہیں اور سواری پر بیٹھ نہیں سکتے۔ اگر میں ان کی طرف سے حج کروں تو کیا ان کا حج ادا ہوجائے گا؟ آپؐ نے فرمایا’’ہاں۔ ‘‘ (کتاب الحج)
اس حدیث سےمعلوم ہواکہ اگر کوئی شخص خود حج ادا کرنے سے بالکل معذور ہوچکا ہوتو اس کی طرف سے حج بدل کرنا صحیح ہے اور اس طرح اس کا فرض ادا ہوجاتاہے۔
ترمذی کی ایک حدیث کا ترجمہ یہ ہے
’’ایک عورت حضورؐ کے پاس آئی اور اس نے کہا میری ماں وفات پاگئیں اور انھوں نے حج نہیں کیا تھا، کیا ان کی طرف سے حج کروں ؟ آپؐ نے فرمایا ہاں ان کی طرف سے حج کرو۔‘‘ (کتاب الحج)
اس حدیث میں صراحت ہے کہ میت کی طرف سے بھی حج ادا کیا جاسکتا ہے، خواہ اس نے وصیت کی ہویا نہ کی ہو۔
۲- فقہ حنفی کی روسے اس صورت میں بھی حج بدل صحیح ہے۔ البتہ بہتریہ ہے کہ حج بدل میں ایسے شخص کو بھیجا جائے جو اپنا حج ادا کرچکا ہو۔
۳- اس بات پرتمام ائمہ دین کا اجماع ہے کہ حج بدل یاتومیت کی طرف سے کیاجاسکتا ہے یا کسی ایسے معذور کی طرف سے جس کے عذر کے ختم ہونے کی توقع باقی نہ رہی ہو۔اس لیے اگر کوئی شخص خود حج کرسکتا ہو تو اس کی طرف سے حج بدل صحیح نہ ہوگااور اگر کوئی شخص ازخود استطاعت وقدرت رکھنے کے باوجود کسی دوسرےکو حج بدل کےلیے بھیجے تواس کا حج ادانہ ہوگا۔
۴-احادیث میں جس نیابت اور حج بدل کی اجازت ہے اس کا آپ کے سوال ۴ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ان میں اجازت صرف دوصورتوں میں دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ کوئی اپنا فرض حج اپنی زندگی میں ادا نہ کرسکا ہواوروفات پاگیا۔ دوسری صورت یہ کہ وہ اتنا معذور ہوچکا ہو کہ بطور خود حج ادا کرسکنے کی توقع باقی نہ رہی ہو۔اس اجازت سے اگر کوئی کاہل اورفرض ناشناس مال دار فائدہ اٹھانا چاہے تو یہ اس کی حماقت ہوگی۔ باقی رہی یہ بات کہ کون سی عبادت نیابتہً اداہوسکتی ہے اور کون سی ادا نہیں ہوسکتی، یہ ایک طویل الذیل اوراختلافی مسئلہ ہے اس مختصر جواب میں اس پر گفتگو کی گنجائش نہیں ہے۔ (ستمبر۱۹۶۸ء،ج۴۱،ش۳)