حج میں کنکریاں مارنے کی علت

مولانا مودودی نے ’خطبات پنجم ‘ میں حج کے فائدے کے بیان میں رمی جمار کی علت بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ابرہہ کی فوج کی پسپائی اور تباہی کی یاد گار ہے۔ تمل ناڈو کے ایک گائوں کے چند علماءنے ’ترغیب وترہیب‘ کی ایک روایت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ کم زور حدیث سہی لیکن اس سے رمی جمار کی علت ابرہہ کا واقعہ نہیں بلکہ شیطان کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے ظاہر ہونا ہے۔ لہٰذا مولانا مودودی کا دعویٰ بے دلیل ہے۔ براہ کرم اس سلسلے میں آپ اپنی تحقیق سے مطلع فرمائیں،  عین نوازش ہوگی۔ یہ حضرات بڑے زوروشورسے دلیل مانگ رہے ہیں کہ رمی جمار کا تعلق ابرہہ سے کیسے ہوگیااور یہ کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل حج میں رمی جمار تھایا نہیں ؟ اگر نہیں تو اس کا ثبوت کیا ہے؟ مذکورہ حدیث علیحٰدہ کاغذ پرارسال ہے۔

عن ابن عباس رضی اللہ عنھما رفعہ الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال لمااتی ابراہیم خلیل اللہ صلوات اللہ علیہ وسلامہ المناسک عرض لہ الشیطان عند الجمرۃ العقبۃ فرماہ سبع حصاۃ حتی صاخ فی الارض ثم عرض لہ عندالجمرۃ الثانیۃ فرماہ سبع حصیات حتی صاخ فی الارض ثم عرض لہ عن الجمرۃ الثالثۃ فرماہ سبع حصیات حتی صاخ فی الارض قا ل ابن عباس رضی اللہ عنھما الشیطان ترجمون وملۃ ابیکم ابراہیم تتبعون رواہ ابن خزیمۃ فی صحیحہ والحاکم وللفظ لہ، قال صحیح علی شرطھما۔   (ص۴۳،الجزء الثالث من الترغیب والترہیب)

جواب

آپ نے جو سوال بھیجا ہے اسی طرح کا ایک سوال مدرسہ مطلع العلوم (Vadakarai) کے ایک مدرس جناب جے۔اے۔عبدالرحمٰن صاحب کی طرف سے بھی آیا تھا۔ اور انھوں نے بھی وہی حدیث بھیجی تھی جوآپ نےبھیجی ہے اور انھوں نے بھی لکھا تھا کہ اس کا جواب دیا جائے۔ میں نے ایک مختصر جواب ان کو بھیج دیاتھا۔

اب میں اس حدیث کے بارے میں چند باتیں پیش کرتاہوں۔ پہلی بات یہ کہ جب وہ علماءاس حدیث کو کم زور سمجھتے ہیں تو وہ ایک ایسے واقعہ کے لیے جو ہزاروں برس پہلے ہوا،دلیل کیسے بن سکتی ہے اور دلیل بھی ایسی کہ اس کے خلاف کچھ کہنا قابل اعتراض ہو۔ دوسری بات یہ کہ اس حدیث کےضعیف ہونے کا حال یہ ہے کہ بڑے بڑے محدثین اور بڑے بڑے علماء اپنی کتابوں میں اس کی طرف اشارہ بھی نہیں کرتے۔ مثال کے طورپر علامہ ابن حجر عسقلانی  ؒجو بہت بڑے محدث تھے، اپنی مشہور کتاب فتح الباری شرح بخاری میں رمی جمار کی احادیث کی شرح میں اس حدیث کی طرف کوئی اشارہ بھی نہیں کرتے۔

موجودہ دور کے علماءمیں سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کو بہت اونچا مقام حاصل ہے۔ انھوں نے بھی سیرت النبیؐ جلد۵ میں کنکریاں مارنے کی علت پر جوکچھ لکھا ہے اس میں ترغیب وترہیب کی اس حدیث کی طرف کوئی اشارہ بھی موجود نہیں ہے۔تیسری بات یہ کہ اس حدیث سے تویہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے سامنے شیطان حج کے موقع پر آیا تھا، حالاں کہ مشہور یہ ہے کہ اس نے ان کو حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کے وقت بہکایا تھا۔

علامہ سیدسلیمان ندوی نے کنکریاں مارنے کی علت کے سلسلے میں تین باتیں لکھی ہیں  ایک تو یہ عام خیال کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی قربانی کے وقت شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہکایا تھا اور انھوں نے اس کو کنکریاں ماری تھیں۔  دوسرا خیال مولانا حمید الدین فراہی کا کہ کنکریاں مارنا ابرہہ کی فوج پرسنگ باری کی یادگار ہے۔(ممکن ہے کہ مولانا مودودی نے اس خیال کو صحیح سمجھا ہو) تیسرا خیال انھوں نے اپنا لکھا ہے وہ یہ کہ ہوسکتا ہے کہ شرک کے ایک بڑے مظہرکوسنگ سار کرنے کے لیے کنکریاں ماری جاتی ہوں۔                               (سیرت النبی، ج۵،حج کا بیان )

اگر کنکریاں مارنے کی علت کے بارے میں کوئی صحیح حدیث موجود ہوتی تو علامہ اسے ترک نہ کرتے۔ مولانا مودودی نے بھی اس کے بارے میں یہی لکھا ہے کہ کوئی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اپنی سمجھ اور اپنے قیا س کے مطابق اس کی مختلف علتیں اوروجوہ بیان کرتے ہیں۔  اگر یہ کوئی قصور ہے تو اس کے قصوروار صرف مولانا مودودی نہیں ہیں۔  صحیح حدیث میں یہ تو ہے کہ کنکریاں مارنے کا مقصد کیا ہے لیکن یہ نہیں ہے کہ یہ کس چیز کی یادگار ہے؟ مقصد کے بارے میں ترمذی میں یہ حدیث موجود ہے

عَنْ عَائِشَۃَ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّم قَالَ اِنِّمَا جُعِلَ الرّمی وَالسَّعْی بَیْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ لِاِ قَامَۃِ ذِکِرِ اللہِ قَالَ اَبُوْعِیْسٰی ھَذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔                                (ترمذی،کتاب الحج)

’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایارمی جماراور صفاومروہ کے درمیان سعی اللہ کا ذکر قائم کرنے کے لیے مقرر کی گئی ہے۔امام ترمذی نےکہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‘‘

آپ ان علماءسے کہیے کہ وہ خود عالم دین ہیں۔  اس موضوع پراردو زبان میں ایک مدلل مضمون لکھیں، اس میں کنکریاں مارنے کی تاریخ بھی بیان کریں اور یہ بھی ثابت کریں کہ اس کی علت کیا ہے؟ میں ان شا ءاللہ ان کا وہ مضمون ماہ نامہ ’زندگی‘ میں شائع کردوں گا۔ یہ تو جواب ہوا۔ آپ سے یہ کہنا ہے کہ کچھ علماء ایک محض ضمنی بات کو بڑھاکر مولانا مودودی بلکہ جماعت اسلامی کے خلاف ایک فضا پیدا کرنے کی مہم میں لگے ہوئےہیں اور وہ متوسلین جماعت کو ایک لاحاصل بحث میں الجھانا چاہتے ہیں۔  آپ لوگوں کو اس بحث میں الجھنا نہیں چاہیے۔جو لوگ الجھانا چاہیں ان سے کہیے کہ یہ ایک علمی بحث ہے اس لیے ان کو جماعت اسلامی کے ان لوگوں سے گفتگو کرنی چاہیے جو عربی زبان اور علوم دین سے واقف ہیں۔                                 (مئی ۱۹۷۸ء،ج۶۰،ش۵)