حدود کی بحث کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک جگہ حسب ذیل مضمون نظر سے گزراہے
’’اگر اجرت ادا کرکے کسی غیر پیشہ ور عورت سے زنا کرے تو حنفیہ کے نزدیک دونوں میں سے کسی پر حد واجب نہیں ہوگی اس لیے کہ اجارے سے منفعت اٹھانے کا حق یا ملک حاصل ہوجاتا ہے۔ پس حد واجب نہ ہوگی۔حرمت زنامیں یہاں ایک گونہ شبہ پیدا ہوگیا۔ اس بارے میں حضرت عمرفاروقؓ کے ایک فیصلہ کی نظیر بھی موجود ہے۔ ایک عورت نے صحرا میں بکریوں کے ایک چرواہے سے دودھ مانگا۔ چرواہے نے دودھ دینے سے انکار کیا اور اس کی مجبوری اورکھانے کی ضرورت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شرط لگائی کہ وہ اسے اپنے نفس پرقدرت دے۔ عورت نے قبول کرلیا اور چرواہے نے اس سے زنا کیا۔ پھر معاملہ حضرت عمرؓ تک پہنچا۔ آپ نے ان دونوں سے حد ساقط کردی- غرض حضرت عمرؓ نے اس کو اجارہ شمار کیا۔‘‘ (الفقہ علی المذاہب الاربعہ، ص۹۶)
’’اور اگر کسی پیشہ ور عورت سے اجرت ادا کرکے زنا کرے تو حدصرف مزنیہ کولگے گی۔ مرد کی محض تعزیرکی جائے گی۔‘‘ (البحرالرائق ج۵)
براہ کرم رہ نمائی کریں کہ کیا یہ صحیح ہے؟
جواب
پتہ نہیں مضمون کن صاحب کا ہے جس سے آپ نے عبارت بالا نقل کی ہے۔ الفقہ علی المذاہب الاربعہ کا حوالہ بالکل ناقص ہے۔ صرف کتاب کا نام اور صفحہ ۹۶ لکھ دینے سے کس طرح اس کتاب میں وہ حوالہ دیکھا جاسکتا ہے؟ کیوں کہ یہ کتاب کئی جلدوں میں ہے۔ حضرت عمرؓ کے جس فیصلہ کا حوالہ دیاگیا ہے جب تک مستند طورپر اس کی تحقیق نہ کرلی جائے میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ بظاہر ان کی طرف اس کا انتساب صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ البحرالرائق جلد۵ کتاب الحدود میں مجھے وہ مسئلہ نہیں ملا جس کا حوالہ دیاگیا ہے۔ آپ نے جو عبارت نقل کی ہے اس میں حنفیہ کامسلک صحیح طورپر پیش نہیں کیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات کہ مسئلہ زیر بحث میں ’’زنا کی حرمت میں ‘‘ کوئی شبہ پیدا ہوگیا ہو بالکل غلط ہے۔ زنا حرام قطعی ہے، اس میں شبہ پیدا ہوجانے کے کیا معنی ؟ البتہ شبہ اس میں ہوسکتا ہے کہ زنا کے اس فعل پرحد زنا نافذ ہوگی یا نہیں ؟ کیوں کہ زنا کے ہر فعل پرحد شرعی نافذ نہیں ہوتی۔ نفاذ حد کی کچھ شرائط ہیں۔ جب تک وہ شرائط پوری نہ ہوں حد جاری نہیں کی جائے گی۔
آپ نے جو عبارتیں نقل کی ہیں اس سے قطع نظر یہ حقیر اپنے مطالعہ کی حدتک اس مسئلہ کی تفصیل پیش کرتا ہے۔ آپ ایک اچھے وکیل بھی ہیں اور یہ جانتےہیں کہ شبہات پیداہو جانے کے بعد حدود کو نافذ نہ کرنے کا حکم دیاگیا ہےاور اسلامی شریعت کا یہ حکم متفقہ ہے۔ اگر کسی مرد نے کسی عورت سے زنا کرنے کے لیے اس کو اجارے پر حاصل کیا اور پھر اس کےساتھ ارتکاب زنا کیا تو اس پر حد زنا جاری ہوگی یا نہیں ؟ اس مسئلہ میں امام ابوحنیفہؒ کا قول یہ ہے کہ اس پر حدجاری نہیں کی جائےگی۔ کیوں کہ اجارے پرحاصل کی ہوئی چیز سےفائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہوجاتاہے۔ اس لیے کوئی شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ اجارے کے معاملے سے اس فعل کااس کو حق حاصل ہوگیا ہے۔ اسی شبہ کی بناپر اس سے حد زنا ساقط ہوجائے گی۔ امام اعظم کے دونوں شاگرد- امام ابویوسف اورامام محمد رحمہما اللہ، نیزائمہ ثلاثہ- مالک، شافعی اور ابن حنبل رحمہما اللہ کے نزدیک اس شخص پرحد زنا جاری کی جائے گی کیوں کہ زنا حرام ہے اور کسی مسلمان کا یہ سمجھنا کہ عورت کو اجرت پرحاصل کرکے اس کو اس کا حق حاصل ہوگیا محض بہانہ ہے او رقابل تسلیم نہیں ہے۔ اس لیے یہاں شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن امام اعظم کے قول سے یہ سمجھنا کہ ان کے نزدیک یہ کوئی قابل سزاجرم نہیں ہے، صحیح نہیں ہے۔ قانونی طورپر بات صرف اتنی ہے کہ ایسے شخص پرحد زنا جاری کی جائے گی یا اس کو تعزیر اً کوئی سزادی جائےگی۔ امام اعظم تعزیر کے قائل ہیں اور دوسرے ائمہ حد شرعی کے۔
اس مسئلہ میں صاحبین اوردیگر ائمہ کی رائے قوی اورامام اعظم کی رائے ضعیف ہے۔ یہاں تک کہ صاحب فتح القدیر نے بھی اپنی کتاب (فتح القدیر جلد۴ ص ۱۵۰ کتاب الحدود) میں لکھا ہے کہ حق یہ ہے کہ ایسے شخص پرحد زنا جاری کی جانی چاہیے حالاں کہ وہ اقوال امام اعظم کی تائید اور ان کو مدلل کرنے میں بیرسٹر سمجھے جاتے ہیں لیکن اس مسئلہ میں انھوں نے صاحبین کی رائے کوترجیح دی ہے۔
(جنوری ۱۹۸۲ء ج۶۹ش۱)