جواب
اَشْہُرحُرُمکی حقیقت یہ ہے کہ نبی ﷺ کی بعثت سے پہلے صدہا برس سے عرب میں طوائف الملوکی، بد نظمی اور بد امنی برپا تھی۔ قبائل میں آئے دن لڑائیاں ہوتی رہتی تھیں ۔ راستے غیر محفوظ تھے۔ کوئی شخص اپنے قبیلے کے حدود سے نکل کر اپنے آپ کو محفوظ نہ پاتا تھا۔ بلکہ کوئی قبیلہ خود اپنے حدود میں بھی کسی طاقت ور قبیلے کا چھاپہ اچانک پڑ جانے سے مامون نہ تھا۔ ان حالات میں کب، کس طریقے سے اللّٰہ کی یہ رحمت عرب قوم پر نازل ہوئی کہ سال میں چار مہینے حرام قرار دے دیے گئے تاکہ ان میں جنگ اور قتل و غارت گری بند رہے اور لوگ اطمینان سے حج اور عمرہ ادا کرسکیں ۔ یہ بات کسی ذریعے سے معلوم نہیں ہوسکی ہے کہ ان چار مہینوں کو حرام قرار دینے کا یہ قاعدہ کس نے بنایا، کب بنایا، اور کس طرح تمام عرب قبائل نے اسے تسلیم کرلیا۔ بہرحال اسلام سے پہلے صدیوں سے یہ قاعدہ عرب میں رائج تھا اور ہر سال چار مہینے کے لیے امن میسر آجانا اس بد نصیب قوم کے لیے اللّٰہ کا بہت بڑا فضل تھا۔
اسلام جب آیا تو عہدِ جاہلیت کی تمام اچھی چیزوں کی طرح اس قاعدے کی بھی توثیق کی گئی، کیونکہ اس کی بدولت کم از کم چار مہینے خوں ریزی رُکی رہتی تھی اور حج اور عمرے کا سلسلہ جاری رہ سکتا تھا، اور مزید برآں ان مہینوں کا احترام اس بات کی علامت بھی تھا کہ جاہلیت میں مبتلا ہونے کے باوجود اہلِ عرب میں کچھ خوفِ خدا باقی ہے۔ پھر جب نبی ﷺ نے ہجرت فرمائی اور مسلمانوں سے کفارِ عرب کی لڑائیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا، اس وقت بھی ان چار مہینوں کی حرمت کا حکم باقی رکھا گیا، تاکہ کم از کم چار ہی مہینے مسلمانوں کو امن میسر آسکے۔ مگر جب تمام عرب مسلمان ہوگئے تو یہ حکم آپ سے آپ منسوخ ہوگیا۔ کیونکہ اسلام کے دائرے میں داخل ہوجانے کے بعد تو ان پر دوسرا اور عظیم تر حکم، یعنی قتلِ مسلم بغیر حق کی حرمت کا دائمی حکم عائد ہوگیا۔ اب اَشْہُرِ حُرُم کی حرمت کا حکم باقی رہنے کے معنی یہ ہوتے کہ اہلِ عرب صرف چار مہینے تو جنگ سے پرہیز کریں ، باقی ایام میں وہ لڑ سکتے ہیں ۔
اس حکم کو جزیرۃ العرب کے لیے اور اس کے بھی صرف آغازِ اسلام کے دَور تک کے لیے مخصوص ماننے کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ جزیرۃ العرب کے مسلمان ہوجانے کے بعد مسلمانوں کی لڑائیاں جائز طور پر صرف جزیرے سے باہر کے کفار کے ساتھ ہی ہوسکتی تھیں اور ان لڑائیوں میں صحابہ کرامؓ کے دَور سے لے کر آج تک کبھی اَشہُرِ حُرُم کی حرمت کا سوال کسی عالم نے نہیں اٹھایا۔ ظاہر ہے کہ کفار تو جنگ کی ابتداء کرنے میں اَشْہُرِ حُرُم کا لحاظ کر ہی نہ سکتے تھے۔ لیکن خود مسلمانوں نے بھی کسی کافرقوم پر حملہ کرتے ہوئے اس بات کا لحاظ نہیں کیا ہے کہ کسی حرام مہینے میں جنگ نہ چھڑے اور میرے علم میں یہ بات نہیں ہے کہ کسی فقیہ نے کبھی اس پر اعتراض کیا ہو۔ (ترجمان القرآن، فروری ۱۹۶۵ء)