موجودہ قانون کی رُو سے بچوں کی حضانت کا حق ماں کو خاص عمروں تک حاصل ہے۔ یعنی لڑکا ہو تو سات سال اور لڑکی ہو تو بلوغ تک۔ حضانت کے لیے عمروں کا یہ تعیّن نہ قرآن میں ہے اور نہ کسی حدیث میں ، بلکہ یہ بعض فقہا کا اجتہاد ہے۔ کیا آپ کے نزدیک اس میں کوئی ترمیم ہو سکتی ہے؟
جواب
اس معاملے میں صحیح بات یہ ہے کہ بچوں کا مفاد ہر دوسری چیز پر مقدم ہے۔ ہر انفرادی مقدمے میں حالات کو دیکھتے ہوئے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ماں اور باپ میں سے جس کی حضانت بھی زیادہ موزوں نظر آئے اسے ترجیح دی جائے۔ کسی ایک کے حق میں قانون بنا دینا مناسب نہیں ہے۔ البتہ قانوناً یہ لازم ہونا چاہیے کہ جس فریق کی حضانت میں بھی بچے دیے جائیں وہ دوسرے فریق سے ان کے ملنے میں مزاحم نہ ہو۔ مشہور فقہا میں سے علاّمہ ابن تیمیہؒ اور ابن قیمؒ کی راے بھی وہی ہے جو میں نے اوپر عرض کی ہے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۵۵ء)