حضرت ابراہیم ؈ کا دَورِ تفکُّر

آپ نے تفہیم القرآن میں سورۂ الانعام کے رکوع ۹سے تعلق رکھنے والے ایک توضیحی نوٹ میں لکھا ہے کہ: ’’وہ (حضرت ابراہیم ؑ) ھٰذَا رَبِّیْ کہنے سے شرک کے مرتکب نہیں ہوئے، کیوں کہ ایک طالب ِحق اپنی جستجو کی راہ میں سفر کرتے ہوئے بیچ کی جن منزلوں پر غور وفکر کے لیے ٹھیرتا ہے،اصل اعتبار ان کا نہیں بلکہ اس سمت کا ہوتا ہے جس پر وہ پیش قدمی کررہا ہے۔‘‘ سوال یہ ہے کہ اگر نبوت وہبی ہوتی توحضرت ابراہیمؑ کو عام انسانوں کی طرح خدا کے الٰہ ہونے یا نہ ہونے کے مسئلے میں شک اور تحقیق کی ضرورت نہ ہوتی۔اگر انھوں نے عام انسانوں کی طرح دماغی کاوشوں اور منطق وفلسفہ ہی سے اﷲ کی الوہیت کو پایا تو نبوت ایک کسبی معاملہ ہوا اور ایک فلاسفر اور نبی کے حصولِ علم میں کوئی فرق نہ ہوا۔
جواب

معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کے وہبی ہونے کا مطلب نہیں سمجھا گیا،اسی وجہ سے یہ سوال پیدا ہوا ہے۔ نیز آیاتِ الٰہی کے مشاہدے سے حق کی جستجو کرنا اور فلسفیانہ قیاس آرائیوں سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرنا ایک دوسرے کا ہم معنی سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ چیز بھی سائل کے لیے غلط فہمی کی موجب ہوئی ہے۔
قرآن مجید ہمیں بتاتا ہے کہ انبیا ؊ وحی آنے سے پہلے جو علم رکھتے تھے،اس کی نوعیت عام انسانی علوم سے کچھ بھی مختلف نہ ہوتی تھی۔ان کے پاس نزول وحی سے پہلے کوئی ایسا ذریعۂ علم نہ ہوتا تھا جو دوسرے لوگوں کو حاصل نہ ہو۔چنانچہ فرمایا: مَا كُنْتَ تَدْرِيْ مَا الْكِتٰبُ وَلَا الْاِيْمَانُ({ FR 1653 }) ( الشوریٰ :۵۲ ) اوروَوَجَدَكَ ضَاۗلًّا فَہَدٰى ({ FR 1654 }) (الضحیٰ:۷ )
اس کے ساتھ قرآن ہمیں یہ بھی بتاتا ہے کہ انبیا؊ نبوت سے پہلے علم ومعرفت کے انہی عام ذرائع سے،جو دوسرے انسانوں کو بھی حاصل ہیں ، ایمان بالغیب کی منزل طے کرچکے ہوتے تھے۔وحی آکر جو کچھ بھی کرتی تھی وہ بس یہ تھا کہ پہلے جن حقیقتوں پر ان کا دل گواہی دیتا تھا،اب انھی کے متعلق وحی یقینی اورقطعی شہادت دے دیتی تھی کہ وہ حق ہیں ، اور انھی صداقتوں کا عینی مشاہدہ کرادیا جاتا تھا، تاکہ وہ پورے وثوق سے دنیا کے سامنے ان کی گواہی دے سکیں ۔ یہ مضمون سورۂ ہود میں بار بار بہ تکرار بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ پہلے نبیﷺ کے متعلق فرمایا:
اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّ بِّہٖ وَ یَتْلُوْہُ شَاھِدٌ مِّنْہُ وَ مِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّ رَحْمَۃً (ہود:۱۷)
’’پھر کیا وہ شخص جو پہلے اپنے ربّ کی طرف سے ایک دلیلِ روشن پر تھا(یعنی عقلی وفطری ہدایت پر) اس کے بعد خدا کی طرف سے ایک گواہ بھی اس کے پاس آگیا (یعنی قرآن)اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب بھی راہ نمااور رحمت کے طور پر موجود تھی(کیا وہ اس صداقت کے بارے میں شک کرسکتا ہے؟‘‘
پھر اس کے بعد یہی مضمون رکوع ۳ میں حضرت نوح؈ کی زبان سے ادا ہوتا ہے:
یٰقَوْمِ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ کُنْتُ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّیْ وَ اٰتٰنِیْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِہٖ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ اَنُلْزِمُکُمُوْھَا وَ اَنْتُمْ لَھَا کٰرِھُوْنَ (ہود:۲۸) ’’اے میری قوم کے لوگو! غور تو کرو،اگر میں اپنے ربّ کی طرف سے ایک دلیلِ روشن پر تھا،اور اس کے بعد اس نے اپنی طرف سے مجھ کو رحمت(وحی ونبوت) سے بھی نوازا،اور وہ چیزتم کو نظر نہیں آتی،تو اب کیا ہم زبردستی اسے تمھارے سر چپک دیں ؟‘‘
پھر اسی مضمون کو چھٹے رکوع میں حضرت صالح ؑ اور آٹھویں رکوع میں حضرت شعیبؑ دہراتے ہیں ۔اس سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ وحی کے ذریعے سے حقیقت کا براہِ راست علم پانے سے پہلے انبیا ؊ مشاہدے اور غور وفکر کی فطری قابلیتوں کو صحیح طریقے پر استعمال کرکے(جسے اوپر کی آیات میں بَیِّنَۃٍ مِن رَبِّہِ سے تعبیر کیاگیا ہے)توحید ومعاد کی حقیقتوں تک پہنچ جاتے تھے، اور ان کی یہ رسائی وہبی نہیں بلکہ کسبی ہوتی ہے۔اس کے بعد پھر اﷲ تعالیٰ انھیں علمِ وحی عطا کرتا تھا،اور یہ چیز کسبی نہیں بلکہ وہبی ہوتی تھی۔
یہ مشاہدۂ آثار اور غور وفکر، اور عقلِ عام(common sense) کا استعمال اُن قیاس آرائیوں اور اُس خرص وتخمین (speculation) سے بالکل ایک مختلف چیز ہے جس کا ارتکاب فلاسفہ کیا کرتے ہیں ۔یہ تو وہ چیز ہے جس پر قرآن مجید ہر انسان کو خود آمادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے اور بار بار اس سے کہتا ہے کہ آنکھیں کھول کر خدا کی قدرت کے آثار کو دیکھو اوران سے صحیح نتیجہ اخذ کرو۔سائل نے اپنے سوال میں جس آیت کی تفسیر کے متعلق اپنے شک کا اظہار کیا ہے خود اسی کے ماقبل ومابعد کا مضمون اگر وہ پڑھیں تو دیکھیں گے کہ وہاں بھی مقصودِ کلام یہی بتانا ہے کہ آیاتِ الٰہی کے مشاہدے سے ایک غیر متعصب طالبِ حق کس طرح حقیقت تک پہنچ جاتا ہے۔ (ترجمان القرآن جولائی تا اکتوبر۱۹۴۴ئ)