جواب
یہ روایات({ FR 1489 }) [صحیح]بخاری کتاب أحادیث الأنبیاء اور مسلم باب إثبات الشفاعۃ میں موجود ہیں ۔ اس کے علاوہ دوسری کتب حدیث میں بھی آئی ہیں ۔ان سب روایات کی اسنادکو، ان کی کثرت طرق کو دیکھنے کے بعد اس امر میں تو کوئی شبہہ نہیں رہتا کہ حضرت ابو ہریرہؓ ہی ان کے راوی ہیں ،کیوں کہ اتنے کثیر راویوں کے بارے میں ، خصوصاً جب کہ ان میں سے اکثر وبیش تر ثقہ تھے،یہ گمان نہیں کیا جاسکتا کہ انھوں نے ایک صحابی کا نام لے کر قصداً ایک غلط روایت تصنیف کی ہوگی۔رہے حضرت ابو ہریرہؓ ،تو ان پر ہم یہ شبہہ تک نہیں کرسکتے کہ وہ نبی ﷺ کی طرف کوئی غلط بات منسوب کریں گے۔لیکن ہمارے لیے ان راویوں کو جھوٹا ماننا جس قدر مشکل ہے،اُس سے بدرجہا زیادہ مشکل یہ باور کرنا ہے کہ ایک نبی نے جھوٹ بولا ہوگا، یا نبیؐ نے معاذ اﷲ، ایک نبی پر دروغ گوئی کا جھوٹا الزام لگایا ہوگا۔اس لیے لامحالہ ہم یہ سمجھنے پر مجبور ہیں کہ اس معاملے میں ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے جس کی بنا پر نبیؐ کا ارشادصحیح طورپر نقل نہیں ہوا۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ؈ کے جو تین’’جھوٹ‘‘ اس روایت میں بیان ہوئے ہیں ،ان میں سے دو تو قطعاً جھوٹ نہیں ہیں ،اور تیسرا جھوٹ دراصل بنی اسرائیل کا جھوٹ ہے جو انھوں نے بائبل میں ایک جگہ نہیں ،بلکہ دو مقامات پر حضرت ابراہیم ؈ کی طرف منسوب کیا ہے۔
پہلے دو واقعات خود قرآن مجید میں بیان ہوئے ہیں ،مگر نہ ان میں سے کسی کو اﷲ تعالیٰ نے جھوٹ قرار دیا اور نہ صورت واقعہ سے ان کے جھوٹ ہونے کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔پہلا واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؈ کے کنبے قبیلے کے لوگ اپنے ایک مشرکانہ میلے کے لیے شہر سے باہر جانے لگے تو آپؑ یہ عذر کرکے پیچھے ٹھیر گئے کہ انِّیْ سَقِیْمٌ ( الصافات:۸۹) ’’میں بیمار ہوں ۔‘‘ اس کو جھوٹ قرا ردینے کے لیے کسی مستند ذریعے سے یہ معلوم ہونا ضروری ہے کہ حضرت ابراہیم ؈ اُس وقت بالکل تندرست تھے، کسی قسم کی شکایت ان کو نہ تھی۔ لیکن یہ بات نہ اﷲ نے بتائی نہ اُس کے رسول ﷺ نے۔ پھر اُسے آخر کس بنا پر جھوٹ کہا جائے؟دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب حضرت ابراہیم ؈ نے اپنی قوم کے بت خانے میں گھس کر بڑے بت کے سوا باقی سارے بت توڑ دیے تو قوم کے لوگوں نے حضرت ابراہیم ؈ پر شبہہ ظاہر کیا۔ چنانچہ وہ بلائے گئے اور ان سے پوچھا گیا کہ تم نے ہمارے خدائوں کے ساتھ یہ حرکت کی ہے؟انھوں نے جواب دیا:
بَلْ فَعَلَہٗ۰ۤۖ كَبِيْرُہُمْ ھٰذَا فَسْـَٔــلُوْہُمْ اِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ ( الانبیائ:۶۳)
’’بلکہ یہ فعل ان کے اس بڑے نے کیا ہے،ان زخمی بتوں سے پوچھ لواگر یہ بول سکتے ہیں ۔‘‘
اس فقرے کے الفاظ خود بتارہے ہیں کہ حضرت ابراہیم ؈ نے یہ بات ایک جھوٹے بیان کی حیثیت سے نہیں بلکہ شرک کے خلاف ایک دلیل کی حیثیت سے فرمائی تھی۔ان کا مدعا دراصل پوچھنے والوں کو اس حقیقت پر متنبہ کرنا تھا کہ تمھارے یہ کیسے خدا ہیں جوبے چارے اپنی داستانِ مصیبت تک نہیں سنا سکتے،اور تمھارا یہ بڑا خدا کیسا ہے جس کے متعلق تم خود جانتے ہو کہ یہ کسی فعل پر قادر نہیں ہے۔اس بات کو تو کوئی معمولی سخن فہم آدمی بھی جھوٹ نہیں کہہ سکتا،کجا کہ ہم نبی ﷺ پر یہ بدگمانی کریں کہ آپؐ نے اسے جھوٹ قرار دیا ہوگا۔
رہا تیسرا’’ جھوٹ‘‘ تو وہ دراصل ان مہمل افسانوں میں سے ایک ہے جو بائبل میں انبیا ؊ کے نام پر گھڑے گئے ہیں ۔بائبل کی کتاب پیدائش میں یہ واقعہ ایک جگہ نہیں بلکہ دو جگہ بیان کیا گیا ہے۔پہلا واقعہ مصر کا ہے اور وہ بائبل کے الفاظ میں یہ ہے:
اُس نے اپنی بیوی سارہ سے کہا کہ دیکھ میں جانتا ہوں کہ تو دیکھنے میں خوب صورت عورت ہے، اور یوں ہوگا کہ مصری تجھے دیکھ کر کہیں گے کہ یہ اس کی بیوی ہے،سو وہ مجھے تومار ڈالیں گے مگر تجھے زندہ رکھ لیں گے۔ سو تو یہ کہہ دینا کہ میں اس کی بہن ہوں …مصریوں نے اُس عورت کو دیکھا کہ وہ نہایت خوب صورت ہے…اور وہ عورت فرعون کے گھر میں پہنچائی گئی… پر خداوند نے فرعون اور اُس کے خاندان پر ابرہام کی بیوی کے سبب سے بڑی بڑی بلائیں نازل کیں ،تب فرعون نے ابرام کو بلا کر اُس سے کہا کہ تو نے یہ مجھ سے کیا کیا؟تو نے مجھے کیوں نہ بتایا کہ یہ تیری بیوی ہے؟تو نے یہ کیوں کہا کہ وہ میری بہن ہے؟اسی لیے میں نے اسے لیا کہ وہ میری بیوی بنے۔ ({ FR 1573 })
لطف یہ ہے کہ خود بائبل ہی کے بیان کے مطابق اُس وقت حضرت سارہ کی عمر۶۵سال تھی۔اس کے بعد دوسرا واقعہ فلسطین کے جنوبی علاقے کا بیان کیا گیا ہے اور وہ یہ ہے:
ابرہام نے اپنی بیوی سارہ کے حق میں کہا کہ وہ میری بہن ہے اور جرار کے بادشاہ ابی ملک نے سارہ کو بلوالیا۔لیکن رات کو خدا ابی ملک کے پاس خواب میں آیا اور اُسے کہا کہ دیکھ، تو اس عورت کے سبب سے جسے تو نے لیا،ہلاک ہوگا، کیوں کہ وہ شوہر والی ہے…اور ابی ملک نے ابرہام کو بلا کر اُس سے کہا کہ تو نے ہم سے یہ کیا کیا، اور مجھ سے تیرا کیا قصور ہوا کہ تو مجھ پر اور میری بادشاہی پر ایک گناہ عظیم لایا؟ ({ FR 1574 })
بائبل کے اپنے بیان کی رُو سے اُس وقت حضرت سارہ کی عمر۹۰سال تھی۔یہ دونوں قصے خود بتا رہے ہیں کہ یہ سراسر جھوٹے ہیں ، اور ہم کسی طرح یہ باور نہیں کرسکتے کہ نبی ﷺ نے اس کی تصدیق فرمائی ہوگی۔
اب ایک شخص یہ سوال کرسکتا ہے کہ اگر یہ تینوں باتیں ازروے درایت غلط ہیں تو اہل روایت نے ان احادیث کو اپنی کتابوں میں درج ہی کیوں کیا؟اس کا جواب یہ ہے کہ درایت کا تعلق احادیث کے نفس مضمون سے ہے،اور روایت کا تعلق تمام تر سند سے۔ اہل روایت نے جو خدمت اپنے ذمے لی تھی،وہ دراصل یہ تھی کہ قابل اعتماد ذرائع سے نبی ﷺکے عہد سے متعلق جتنا مواد ان کو بہم پہنچے،اُسے جمع کردیں ۔ چنانچہ یہ خدمت انھوں نے انجام دے دی۔ اس کے بعد یہ کام اہل درایت کا ہے کہ وہ نفس مضمون پر غور کرکے ان روایات سے کام کی باتیں اخذ کریں ۔اگر اہل روایت خود اپنی اپنی فہم کے مطابق درایت کا کام بھی کرتے اور مضامین پر تنقید کرکے ان ساری روایتوں کو ردّ کرتے جاتے، جن کے مضمون ان کی انفرادی راے میں مناسب نہ ہوتے،توہم اس بہت سے مواد سے محروم رہ جاتے جو مجموعۂ احادیث مرتب کرنے والوں کے نزدیک کام کا نہ ہوتا اور دوسرے بہت سے لوگوں کے نزدیک کا م کا ہوتا۔ اس لیے یہ عین مناسب تھا کہ اہل روایت نے زیادہ تر تنقید اسناد تک اپنے کاموں کو محدور رکھا اور تنقید مضامین کی خدمت انجام دینے والوں کے لیے معتبر اسناد سے بہم پہنچایا ہوا مواد جمع کردیا۔ (ترجمان القرآن، اکتوبر ۔نومبر۱۹۵۲ء)