میرے ایک بزرگ جن سے میرارشتہ دوستانہ ہے، شیعہ ہیں۔ انھوں نے ایک واقعہ سنایا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہؓ کو ایک باغ جہیز میں دیا تھا(جس کا نام شاید باغ فداتھا)۔ اس باغ کو بعد میں ابوبکرصدیقؓ نے ان سے لے لیا تھا، یا یوں کہیے کہ چھین لیاتھا۔ میرے وہ بزرگ کہتے ہیں کہ اس واقعہ سے سنی مورخین نے بھی انکارنہیں کیا ہے۔ میں اس سلسلے میں آپ کی مدد چاہوں گا۔ کیا بزرگ کی یہ بات صحیح ہے؟
جواب
جی نہیں بلکہ سوفی صد غلط ہے۔ جس وقت حضرت فاطمہؓ کی شادی ہوئی تھی، اس وقت حضورؐ کے پاس سرے سے کوئی باغ تھا ہی نہیں کہ آپ انھیں جہیز میں دیتے۔ آپ کے شیعہ دوست نے ایک بالکل غلط بات آپ کو بتائی اور حضرت صدیقؓ پر ایک جھوٹا الزام لگایا۔کسی بھی سنی مورخ نے یہ بات نہیں لکھی ہے۔ آپ اپنے شیعہ دوست سے پوچھیے کہ کس سنی مورخ نے کس کتاب میں یہ بات لکھی ہے ؟ شیعہ بزرگ نے اس باغ کا نام باغ فدک بتایا ہوگا۔ وہ باغ غزوۂ خیبر کے بعد حضورؐ کی ملکیت میں آیا تھا اور خیبر ۷ہجری میں فتح ہواتھا اور حضرت فاطمہؓ کی شادی۲ ہجری میں ہوئی تھی۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ خود اسلامی تاریخ کا مطالعہ کریں تو بہترہے۔ اردو زبان میں بھی اسلامی تاریخ پربہت سی کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ اسی طرح کے جھوٹے الزامات ہیں جو شیعوں اور سنیوں کے درمیان اختلاف پیداکرتے ہیں۔ (جولائی ۱۹۷۴ء،ج ۵۳،ش۱)