جواب
ابن قتیبہ تو بلاشبہہ ایک محقق شخص تھے، لیکن ان کی جس تصنیف کا حوالہ شیعہ عالم نے دیا ہے، اس میں بعض چیزیں ایسی موجود ہیں جو عقلاًقابل قبول نہیں ہیں ۔ خصوصاً حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہ ؓ کی سیرت کا جو نقشہ انھوں نے نبیﷺ کے وصا ل کے بعد کا کھینچا ہے، وہ ایسا ہے کہ اگر اسے صحیح مان لیا جائے تو ان دونوں برگزیدہ ہستیوں کے بارے میں عقیدت تو درکنار، اچھی راے کا برقرار رہنا بھی محال ہو جاتا ہے۔ اس کتاب کے صفحہ۱۲ کا مضمون آپ خود ملاحظہ فرمالیجیے اور خود ہی راے قائم کیجیے کہ آیا ایسی روایات قابل قبول ہوسکتی ہیں ۔ قبول کرنا تو ایک طرف، میں تو اسے اس قابل بھی نہیں سمجھ سکتا کہ اسے نقل کرکے آپ کے سامنے پیش کروں ۔ اسی طرح کی چیزیں دیکھ کر بعض اہل علم نے یہ راے قائم کی ہے کہ یہ کتاب یا تو ابن قتیبہ کی ہے ہی نہیں یا کم ازکم اس میں بعض چیزیں ضرور الحاقی ہیں ۔ میں نے جس خط کا حوالہ دیا ہے، وہ ابن عبدربہ نے العِقد الفرید میں بھی نقل کیا ہے۔ اس لیے میرا انحصار صرف الامامۃ والسیاسۃ پر نہیں ہے۔
مسئلہ خلافت سے قطع نظر جہاں تک حضرت فاطمہؓ کے دعواے میراث کا تعلق ہے، اس کے لیے ابن قتیبہ کی الامامۃ کی طرف رجوع کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ا س کی تفصیلات تو صحیح بخاری اور دوسری کتب حدیث میں موجود ہیں ۔ ان کتابوں کی مستند روایات سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوجاتی ہے کہ حضرت فاطمہؓ میراث کے معاملے میں حضرت ابوبکرؓ سے ناراض تو ضرور ہوئی تھیں ، مگر حضرت ابو بکرؓ نے جس بِنا پر حضرت فاطمہ ؓ کے دعوے کو قبول کرنے سے انکارکیا تھا، وہ رسول اﷲ ﷺ کا یہ ارشاد تھا کہ انبیا؊کی میراث ان کے وارثوں میں تقسیم نہیں ہوتی بلکہ ان کا ترکہ صدقہ ہے۔ یہ بات ابن قتیبہ کے ہاں بھی مذکور ہے اور کسی جگہ بھی یہ مذکور نہیں ہے، کہ حضرت ابوبکرصدیق ؓ کا نقل کردہ فرما ن نبویؐ صحیح نہ تھا یا حضرت فاطمہ ؓ کو اس کی صحت سے انکار تھا۔ اب آپ خود غو رکرلیجیے کہ حضرت ابوبکرؓ کو نبی کریمﷺ کے ارشاد کی تعمیل کرنا واجب تھا یا اس کو نظرانداز کرکے حضرت فاطمہؓ کی رضا مندی حاصل کرنا ضروری تھا؟ ہم تو اس بات کا بھی تصور نہیں کر سکتے کہ رسول اللّٰہ ﷺ کا قول سننے کے بعد اسے قبول کرنے کی بجاے حضرت فاطمہ ؓ اس طرح غضب ناک ہوئی ہوں گی جس طرح غضب ناک ہونے کا نقشہ ابن قتیبہ نے کھینچا ہے۔ اگر وہ رنجیدہ ہوئی تھیں اور اس کا انھوں نے کسی شکل میں اظہار بھی کیا تھا تو اس کی زیادہ سے زیادہ بہتر تأویل یہی کی جاسکتی ہے کہ و ہ حضور ﷺ کے ارشاد کو کسی اور معنی میں لیتی ہوں گی، اور حضرت ابو بکرؓ نے جو مفہوم اس کا سمجھا تھا، اس سے انھیں اتفاق نہ ہو گا۔
یہ تأویل اس واقعے کی نہ کی جائے تو پھر اس الزام سے حضرت فاطمۃ الزہر ائ ؓکو نہیں بچایا جاسکتا کہ وہ مال کی محبت اتنی زیادہ رکھتی تھیں کہ خود اپنے والد ماجد اور اﷲکے رسولﷺ کے قول کی انھوں نے پروا نہ کی۔ کیا سیدۃ النساء کے متعلق کوئی مسلمان ایسی بری راے رکھنے کے لیے تیار ہے؟ خلفاے راشدین اور اہل بیت کے باہمی تعلقات کی ایسی تصویر ہمارے لیے آخر کس طرح قابل قبول ہوسکتی ہے جو فریقین میں سے کسی کی بھی شان اور عظمت میں اضافے کا موجب نہیں ہوسکتی۔
ہمارے ہاں اس امر میں بھی روایات مختلف ہیں کہ آیا حضرت فاطمہؓ اس واقعے کے بعد آخر وقت تک ناراض رہیں یا بعد میں راضی ہوگئیں ۔ بعض روایات میں یہ ہے کہ ان کی رنجش آخری وقت تک رہی، اور بعض میں یہ ہے کہ حضرت ابوبکرؓ بعدمیں خود ان سے ملنے کے لیے تشریف لے گئے اور انھیں راضی کرلیا۔یہی بات میرے نزدیک قرین صواب ہے۔
(ترجمان القرآن ، جون۱۹۵۷ء)