جواب
سوال واقعات سے بے خبری پر مبنی ہے۔ معاملۂ خلافت مسجد نبوی میں نہیں بلکہ سقیفہ بنی ساعدہ میں اس رات طے ہوا تھا جس کی شام کو حضورﷺ کا انتقال ہوا۔ اس وقت مہاجرین و انصار میں سے کوئی بھی وہاں بلایا ہوا نہیں گیا تھا۔ دراصل انصار کا ایک بڑا گروہ اس جگہ جمع ہوگیا تھا اور خلافت کے مسئلے کو طے کرنا چاہتا تھا۔جوں ہی کہ ان کے اس اجتماع اور ارادے کی اطلاع حضرت ابو بکرؓ ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کو ہوئی، وہ فوراًوہاں پہنچ گئے اور ایک فتنۂ عظیم کا دروازہ بند کرنے کے لیے انھوں نے اسی وقت انصار کی اس جماعت کو سمجھا بجھا کر اس مسئلے کا ایک ایسا فیصلہ تسلیم کرالیا جس میں اُمت کی خیر تھی۔ وہ وقت آدمی بھیج بھیج کر لوگوں کو گھروں سے بلانے کا نہ تھا۔اگر یہ تینوں حضرات ذرا سی تاخیر بھی کر گئے ہوتے تو وہاں مسلمانوں کے درمیان ایک بڑی خانہ جنگی کی بنا پڑ گئی ہوتی، جو بعد کے فتنۂ ارتداد میں اسلام اور مسلمانوں کے لیے مہلک ثابت ہوتی۔
اس حالت میں کوئی صاحب عقل آدمی یہ تجویز لے کر نہیں اٹھ سکتا تھا کہ صاحبو، دو چار روز اس معاملے کو ملتوی رکھو،کل رسو ل اﷲ ﷺ کی تجہیز وتکفین سے فارغ ہوکر ایک کانفرنس کا اعلان کریں گے او رپھر اس میں یہ مسئلہ طے کرلیا جائے گا کہ حضور ﷺ کا جانشین کون ہو۔اس طرح کی تجویز پیش کرنے کے معنی یہ ہوتے کہ ایک طرف تو سرکار رسالت مآبؐ کے وفات پا جانے کی خبر عرب کے مختلف حصوں میں اس تصریح کے ساتھ پھیلتی کہ کوئی شخص آپؐ کی جگہ اُمت کا کام سنبھالنے کے لیے مقرر نہیں ہوا ہے، اور یہ چیز ان عناصر کی ہمتیں کئی گنازیادہ بڑھا دیتی جو اسلام کے خلاف بغاوت برپا کردینے کے لیے موقع کے منتظر بیٹھے تھے۔ اور دوسری طرف مجوزہ کانفرنس کے انعقاد سے پہلے انصار کے درمیان یہ راے پختہ ہوچکی ہوتی کہ خلیفہ یا تو کوئی انصاری ہونا چاہیے ،یا پھر ایک امیر انصار میں سے اورایک مہاجرین میں سے ہونا چاہیے۔ حضرت عمرؓ کی بصیرت اس غلطی کے نتائج کواچھی طرح سمجھ رہی تھی،اس لیے انھوں نے وہیں اسی وقت مسئلے کا تصفیہ کرالینا ضروری سمجھا تاکہ کسی فتنے کو پرورش پانے کا موقع نہ ملے،اور بلا تاخیر اس شخص کی خلافت پر بیعت کرالی جسے تمام عرب رسول اﷲ ﷺ کے دست راست کی حیثیت سے جانتا تھا،جس کے متعلق دوست اور دشمن، سب ہی یہ راے رکھتے تھے کہ مسلمانوں میں حضور اکرمﷺ کے بعد اگر دوسرے درجے کی کوئی شخصیت ہے تو اسی کی ہے۔
دوسرے روز صبح کو مسجد نبوی میں جو اجتماع ہوا، وہ بیعت عام کے لیے تھا، نہ کہ مسئلۂ خلافت کا تصفیہ کرنے کے لیے، جیسا کہ آپ کے دوست سمجھ رہے ہیں ۔ اس وقت خلافت کے اس مسئلے کو جو رات بڑی مشکل سے طے ہوا تھا،ازسر نو بحث کے لیے کھولنے کے کوئی معنی ہی نہ تھے۔ یہ اگر بحث کے لیے کھل سکتا تھا تو اسی طرح کہ عام مسلمان رات کی قرارداد کو قبول کرنے سے انکار کردیتے۔لیکن جب انھیں اس فیصلے سے مطلع کیا گیا تو سب نے اسے بخوشی قبول کرلیا او ربیعت کے لیے ٹوٹ پڑے۔سوال یہ ہے کہ اس قبول عام کی صورت میں آخر کیوں اسے نئے سرے سے ایک تصفیہ طلب مسئلہ بنا کر بحث کے لیے سامنے رکھا جاتا؟