جواب
آپ کے سوا ل کا جواب دینے سے پہلے یہ شکایت عرض ہے کہ آپ نے تمام احادیث({ FR 1828 }) کے حوالے بخاری ومسلم کی جلدوں اور صفحات کے نمبروں کی صورت میں دیے ہیں ۔ حالاں کہ ان کتابوں کو دنیا کے بیسیوں مطابع نے مختلف سائزوں پر بارہا طبع کیا ہے، اور ضروری نہیں کہ ان کا جو اڈیشن آپ کے پاس ہو، وہی دوسروں کے پاس بھی ہو۔ ایسی کتابوں کا حوالہ ہمیشہ ان کی ’کتاب‘ اور باب کے عنوان سے دینا چاہیے، تاکہ آسانی سے مطلوبہ حدیث تلاش کی جاسکے۔
آپ کا سوال دیکھنے سے شبہہ ہوتا ہے کہ غالباً آپ نے خود ان کتابوں کا بالاستیعاب مطالعہ نہیں فرمایا ہے بلکہ منکرین حدیث نے فتنہ پردازی کی غرض سے ’’قابل اعتراض‘‘ حدیثوں کی جو فہرستیں مرتب کر کرکے شائع کی ہیں ، انھی میں سے کوئی فہرست آپ کی نگاہ سے گزری ہے، اور آپ نے زیادہ سے زیادہ بس اتنی تحقیق کی زحمت اُٹھائی ہے کہ اس فہرست کی حدیثوں کو بخاری و مسلم کے کسی نسخے میں نکا ل کر یہ اطمینا ن کرلیا ہے کہ یہ حدیثیں وہاں موجود ہیں ۔ میرے اس شبہے کی بنیاد یہ ہے کہ آپ کی پیش کردہ اکثر احادیث ایسی ہیں جن پر آپ کو اپنے شبہات کا جواب خود اسی کتاب کے اسی باب میں مل جاتااگر آپ پورا باب پڑھنے کی تکلیف گوارا فرماتے۔ بلکہ بعض حدیثوں کے تو آپ نے پورے الفاظ تک نہیں پڑھے ہیں اور ان کا وہی غلط سلط مفہوم نقل کردیا ہے جو اس فتنہ پرداز گروہ نے اپنی طرف سے گھڑ کر بیان کیا ہے۔اس طریقے سے یہ لوگ کم سوادلوگوں کو تو دھوکا دے ہی رہے ہیں ، مگریہ دیکھ کر سخت افسوس ہوتا ہے کہ آپ جیسے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ بھی اس آسانی کے ساتھ دھوکا کھا جاتے ہیں ۔ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ دنیا کے کسی علم وفن کے مسائل پر بھی آدمی اتنے سرسری مطالعے سے کوئی صحیح راے قائم نہیں کرسکتا جسے آپ حدیث کے معاملے میں کافی سمجھ رہے ہیں ؟جس طریقے سے آپ نے حدیث کی چند باتیں سیاق وسباق اور موضوع سے الگ کرکے، اور ان کا بالکل ایک سرسری مفہوم اخذ کرکے نقل کی ہیں ،اس طریقے سے تو دنیا کے ہر علم وفن کی کتابوں سے اقتباسات نکال کر محض مضحکہ خیز بنانے کے لیے پیش کیے جاسکتے ہیں ۔
اس مختصر تنبہہ کے بعد میں آپ کی پیش کردہ] حدیث [ پر مفصل کلام کروں گا، تاکہ نہ صرف آپ کو، بلکہ منکرین حدیث کے فتنے سے دھوکا کھانے والے دوسرے اصحاب کو بھی تحقیق کا صحیح طریقہ معلوم ہوسکے۔
حضرت عائشہؓ کے غسل والی حدیث[صحیح] بخاری کتاب الغسل، باب الغسل بالصاع ونحوہ({ FR 1830 }) میں ہے۔اس میں ابوسلمہؓ بیان فرماتے ہیں کہ:’’ میں اور حضرت عائشہ کے بھائی حضرت عائشہؓ کے پاس گئے اور حضرت عائشہؓ کے بھائی نے ان سے نبیﷺ کے غسل کی بابت دریافت کیا۔اس پر حضرت عائشہؓ نے ایک برتن منگایا جو قریب قریب ایک صاع کے برابر تھا اور انھوں نے غسل کیا اور اپنے سر پر پانی بہایا،اس حال میں کہ ہمارے اوران کے درمیان پردہ تھا۔‘‘
اس حدیث پر اعتراض کرنے والوں کی پہلی غلطی یہ ہے کہ وہ ابو سلمہؓ کا نام پڑھ کر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ کوئی غیر شخص تھے،حالاں کہ وہ حضرت عائشہؓ کے رضاعی بھانجے تھے جنھیں حضرت امِ کلثوم بنت ابی بکر صدیقؓ نے دودھ پلایا تھا۔پس دراصل یہ دونوں صاحب جو حضرت عائشہ ؓ سے مسئلہ پوچھنے گئے تھے،آپ کے مَحرم ہی تھے،ان میں سے کوئی غیر نہ تھا۔
پھر دوسری غلطی،بلکہ زیادتی وہ یہ کرتے ہیں کہ روایت میں تو صرف ’’حجاب‘‘ یعنی پردے کا ذکر ہے مگر یہ لوگ اپنی طرف سے اس میں یہ بات بڑھا لیتے ہیں کہ وہ پردہ باریک تھا، اور اس اضافے کے لیے وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ اگر باریک نہ ہوتا جس میں سے حضرت عائشہ ؓنہاتی ہوئی نظر آسکتیں تو پھر اُسے درمیان میں ڈال کر نہانے سے کیا فائدہ تھا؟حالاں کہ اگر انھیں یہ معلوم ہوتاکہ اُس وقت مسئلہ کیا درپیش تھا جس کی تحقیق کے لیے یہ دونوں صاحب اپنی خالہ اور بہن کے پاس گئے تھے،تو انھیں اپنے اس سوال کا جواب بھی مل جاتا اور یہ سوچنے کی ضرورت بھی پیش نہ آتی کہ پردہ باریک ہونا چاہیے تھا۔
دراصل وہاں سوال یہ نہ تھا کہ غسل کا طریقہ کیا ہے،بلکہ بحث یہ چھڑ گئی تھی کہ غسل کے لیے کتنا پانی کافی ہوسکتاہے۔بعض لوگوں کو نبی ﷺ کے متعلق یہ روایت پہنچی تھی کہ آپ ایک صاع بھر پانی سے غسل کرلیتے تھے۔اتنے پانی کو لوگ غسل کے لیے ناکافی سمجھتے تھے اور بناے غلط فہمی یہ تھی کہ وہ غسل جنابت اور غسل بغرض صفائی بدن کا فرق نہیں سمجھ رہے تھے۔حضرت عائشہؓ نے ان کو تعلیم دینے کے لیے بیچ میں ایک پردہ ڈالا جس سے صرف ان کا سر اور چہرہ ان دونوں صاحبوں کو نظر آتا تھا اور پانی منگا کر اپنے اوپر بہایا۔ اس طریقے سے حضرت عائشہؓ ان کو دو باتیں بتانا چاہتی تھیں ۔ ایک یہ کہ غسل جنابت کے لیے صرف جسم پر پانی بہانا کافی ہے۔دوسرے یہ کہ اس مقصد کے لیے صاع بھرپانی کفایت کرتا ہے۔
اس تشریح کے بعد آپ خود سوچیں کہ اس میں آخر قابل اعتراض کیا چیز ہے جس کی بِنا پر خواہ مخواہ ایک مستند حدیث کا انکار کرنے کی ضرورت پیش آئے اور پھر اُسے تما م حدیثوں کے غیر معتبر ہونے پر دلیل ٹھیرایا جائے!
(ترجمان القرآن ، اکتوبر ونومبر۱۹۵۲ء)