حضرت عثمان ؓ پر آمریت کا الزام

مجلہ زندگی مارچ ۱۹۶۴ء باصرہ نواز ہوا۔ اشارات میں صفحہ ۸پر آپ نے یہ تحریر فرمایا ہے

’’مطلق العنان بادشاہوں اورڈکٹیٹروں نے اپنی آمریت کے خلاف کسی طاقت ور آوازیا تحریک کو کب برداشت کیا ہے کہ پاکستان کی آمریت اسے برداشت کرلیتی۔ آمریت جبرواستبداد،  ظلم وجور، قیدوبند اور قتل وخون کے بغیر قائم ہی نہیں رہ سکتی۔‘‘

آپ سے اس کے متعلق دریافت گزارش یہ ہے کہ جہاں تک اسلام میں خلافت راشدہ کے دوران حضرت عثمان بن عفانؓ کی خلافت کا تعلق ہے، کیا وہ آپ کی اس تحریر کے مطابق آمریت میں شمارہ کیے جانے کے لائق تھی یا نہیں، جب کہ رسول اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے حق گوصحابی حضرت ابوذرغفاریؓ کی نظر بندی وجلاوطنی کا واقعہ الم نشرح ہے؟ بلاشک حضرت ابوذر غفاریؓ کو حکومت کی بعض پالیسیوں سے حکم خدا اور رسول کے مطابق اختلاف ضرور تھا جس کے متعلق حدود قانونی کے اندررہ کر ناصحابہ عنوان سے وہ احتجاج کرتے تھے جو کسی طرح بھی سلب آزادی وجلاوطنی کااستحقاق پیدانہیں کرسکتا تھا۔ بالخصوص جب کہ ہر صحابی رسول کو علی العموم حق تاویل واجتہاد حاصل تھا تو پھر حضرت ابوذرؓ جیسے مقتدر صحابی رسول کو اس حق سے محروم کرکے ان کے اجتہاد کی بناپر ان کو آخرکیوں قابل نظر بندی وجلاوطنی ٹھہرایا گیا۔ کیا یہ آپ کے خیال میں حضرت عثمان بن عفانؓکی جن کا شمارجانشین رسول اسلام میں تسلیم شدہ ہے، آمریت اور مطلق العنان حکم رانی نہ تھی؟

جواب

میں نے مارچ کے اشارات میں آمریت سے متعلق جو عبارت لکھی ہے، حضرت عثمانؓ کی خلافت اس کی مصداق نہیں ہوسکتی۔ اس لیے کہ جس حکومت کا حکم راں اوراس کا تمام نظم ونسق کتاب وسنت کا پابند ہو، جس میں اللہ کے نازل کیے ہوئے قوانین پوری طرح نافذ ہوں اور جس کے کارندے نیابتِ الٰہی کا فریضہ انجام دے رہے ہوں، ایک ایسی حکومت وخلافت پرمطلق العنان بادشاہت اور ڈکٹیٹرشپ کا اطلاق آخرکس منطق کی روسے صحیح ہوگا؟ اسلامی حکومت کا سب سے اعلیٰ اورمثالی نمونہ خلافت راشدہ ہی تو ہے جسے غیرمسلم بھی تسلیم کرتے ہیں۔ اگر اس پرآپ مطلق العنان بادشاہت اور آمریت کا اطلاق صحیح سمجھتے ہیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ آج تک اس زمین کے کسی گوشے میں کبھی بھی اسلامی حکومت قائم نہیں ہوئی اوراسلام کی پوری تاریخ ایک بڑے صفر کی حیثیت رکھتی ہے۔کیا واقعی آپ اس نتیجے پرراضی ہیں ؟ پھر یہ بھی سوچیے کہ اگر بالفرض یہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ حضرت عثمانؓ نے حضرت ابوذرغفاریؓ کے ساتھ زیادتی کی تھی تو کیا صرف ایک واقعہ کی بناپران کو ڈکٹیٹراوران کی خلافت کو آمریت کہاجاسکتا ہے؟ کیا یہ بات آپ کے نزدیک قرین انصاف ہے؟
اب اس جزئی واقعہ کو دیکھیے جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے۔ میں انتہائی اختصار سے اس کو یہاں پیش کرتاہوں۔
حضرت ابوذررضی اللہ عنہ کو جس بناپر شام سے مدینہ آنا پڑا اور پھر مدینے سے نکل کر ربذہ میں قیام پذیر ہونا پڑاوہ کیا تھی؟ حضرت ابوذرؓ فرماتے تھے کہ ضرورت سے زیادہ مال رکھنا ناجائز ہے۔ہرمسلمان کے لیے لازم ہے کہ اپنی ضرورت سے زیادہ مال وجوہ خیر میں صرف کردے اور اس کی ملکیت سے دست بردار ہوجائے۔ اگر دوسرے تمام صحابہ کی رائے سے ان کا اختلاف اس حدتک رہتا جس حد تک دوسرے فقہی مسائل میں ان کے درمیان اختلافات تھے تو انھیں مقام ربذہ میں اپنی آخری زندگی تنہا بسر کرنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ لیکن مختلف وجوہ واسباب سے انھوں نے اپنی اس منفرد رائے میں انتہائی شدت اختیارکی۔ باضابطہ اس کی تبلیغ شروع کی اور ضرورت سے زیادہ مال رکھنے والوں پراس اندازمیں ملامت کا آغاز کیا کہ شام میں ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا اور مجبورہوکر حضرت معاویہؓ نے خلیفہ وقت کو اس کی رپورٹ بھیجی۔ حضرت عثمانؓ نے انھیں لکھا کہ پورے عزت واحترام کے ساتھ انھیں مدینہ روانہ کردیاجائے۔ حضرت ابوذرؓ نے مدینہ پہنچ کر بھی اپنی تبلیغ اسی طرح جاری رکھی،یہاں تک کہ مدینے میں بھی ایک شورش پیداہوئی۔ حضرت عثمان ؓ نے انھیں بلایا اور ان کے سامنے دوباتیں رکھیں۔ ایک یہ کہ وہ اپنی موجودہ شدت ترک کرکے ان کے پاس قیام کریں، وہ ان کے تمام اخراجات کے کفیل ہوں گے۔ لیکن حضرت ابوذرؓ نے یہ پیش کش رد کردی۔ تب مجبورہوکر انھوں نے دوسری بات یہ رکھی کہ اگروہ چاہیں تومدینہ سے کہیں قریب ہی قیام کریں۔ انھوں نے بخوشی یہ دوسری بات مان لی اور اپنی پسند سے ربذہ میں مقیم ہوگئے۔ یہ ہے وہ واقعہ جسے گول مول رکھ کرآپ نے اپنا سوال مرتب کیا ہے۔یہ تفصیل جان کر کوئی منصف مزاج آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ خلیفہ وقت نے حضرت ابوذرؓ کے ساتھ زیادتی کی تھی۔ ان کو محض ان کی نرالی اجتہادی رائے کی وجہ سے شام اور مدینہ سے الگ نہیں کیا گیا، بلکہ ان کے اس شدید رویے کی وجہ سے الگ کیاگیا جس نے ہنگامے کی کیفیت پیدا کردی تھی۔ اور پھر اجتہادی رائے بھی ایسی کہ اس وقت سے لے کر آج تک وہ اپنی رائے میں منفرد ہیں۔ نہ تو کسی دوسرے صحابی نے ان کی تائیدکی اور نہ فقہائے اسلام میں کسی فقیہ نے ان کی رائے اختیارکی۔ او رجہاں تک مجھے علم ہے آپ کے (سائل شیعہ مذہب کے پیروہیں )۔فقہا میں بھی کوئی فقیہ ان کا ہم مسلک نہیں ہے۔
پھرآپ نے یہ بھی نہیں سوچا کہ اس وقت بڑے بڑے صحابہ یہاں تک کہ حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ اگر واقعی حضرت ابوذرؓ کے ساتھ زیادتی ہوئی تھی تو کیا ان میں سے کسی نے بھی اس کے خلاف آواز بلند کی؟ کسی نے بھی حضرت عثمانؓ سےیہ کہا کہ آپ ایک جلیل القدر صحابی کا بنیادی حق چھین رہے ہیں ؟ کیا آپ کے خیال میں حضرت عثمان ؓ کی آمریت اس قدر بڑھی ہوئی تھی کہ شیرِ خدا تک خاموش رہنے پر مجبورہوگئے؟ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان کی آمریت صدرایوب کی آمریت سے بھی بڑھی ہوئی تھی جس کے خلاف میں نے اشارات میں اظہارخیال کیا تھا؟ جماعت اسلامی پاکستان کو خلاف قانون قراردینے اور مولانا مودودی وغیرہ کی گرفتاری پر سیکڑوں اور ہزاروں افراد نے احتجاج کیا لیکن حضرت ابوذرؓ کی ’نظربندی‘ پرکسی ایک صحابی نے بھی زبان نہ کھولی۔ کیا صحابہ کرام کے بارے میں اس سوءِ ظن کے لیے آپ کے پاس کوئی معقول بنیاد موجود ہے؟اس کے علاوہ حضرت ابوذرؓ نے جو آپ کے نزدیک بھی حق گوصحابی ہیں، حضرت عثمان ؓ سے یہ کیوں نہیں کہا کہ آپ میرے ساتھ زیادتی کررہے ہیں اور میرے بنیادی حق کوچھین رہے ہیں۔ کیا آپ نے کسی تاریخ میں پڑھا ہے کہ انھوں نے اپنے ساتھ اس معاملے کو ظلم قراردیا ہو؟جب ان باتوں میں سے کوئی بات نہیں ہوئی تو پھر آپ کا اعتراض ’مدعی سست گواہ چست ‘ کے سوااور کیا حیثیت رکھتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خلیفہ ثالث پر یہ الزام ان کے مخالفین کے ذہن کی جولانی ہے۔ جب ان کے خلاف انھوں نے فتنہ اٹھایا تو الزامات کی فہرست میں ایک الزام یہ بھی درج کرلیا ہے۔ جس شخص کی نرم مزاجی نے محاصرے کی حالت میں بھی تلوار نہ اٹھائی اور جو تلاوت قرآن کرتا ہوا شہید ہوگیا اس پرآمریت کا الزام دنیا کا ایک بڑا عجوبہ ہے۔ (اگست ۱۹۶۴ء ج ۳۳،ش۲)