جواب
] یہ[ سوال کہ کیا حضرت علیؓ نے کبھی حضرت ابو بکرؓ کی بیعت کی؟ تو اس کا جواب ہے کہ ممدوح نے اسی روز سب مسلمانوں کے ساتھ بیعت کی تھی۔ طبری نے سعید بن زیدؓ کے حوالے سے، بیہقی نے ابو سعید خدری ؓکے حوالے سے، اور موسیٰ ابن عقبہ صاحب المغازی نے عبدالرحمان بن عوفؓ کے حوالے سے عمدہ سند کے ساتھ یہ روایات نقل کی ہیں ۔ اس کے بعد آں جناب سیّدہ فاطمہؓ کے پاسِ خاطر سے چھ مہینے خانہ نشین رہے اور پھر ان کی وفات کے بعد دوبارہ تجدید بیعت کرکے کاروبار خلافت میں ویسی ہی دل چسپی لینی شروع کی جیسی ان کے شایان شان تھی۔({ FR 1680 }) طبری نے اپنی تاریخ میں اور علامہ ابن عبدالبرؒ نے الاستیعاب میں یہ واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ جب حضرت ابوبکرؓ کی بیعت ہوچکی تو ابو سفیان نے آکر ان سے کہا کہ:’’یہ کیا غضب ہوگیا ؟قریش کے سب سے چھوٹے قبیلے کا آدمی کیسے خلیفہ بنا دیا گیا؟ اے علی! اگر تم چاہو تو خدا کی قسم! میں اس وادی کو سواروں اور پیادوں سے بھر دوں ۔‘‘ اس پر انھوں نے جو جواب دیا، وہ سننے کے قابل ہے۔فرمایا: ’’اے ابوسفیان!تم ساری عمر اسلام اور اہل اسلام سے دشمنی کرتے رہے، مگر تمھاری دشمنی سے نہ اسلام کا کچھ بگڑ سکا اور نہ اہل اسلام کا۔ ہم ابو بکرؓ کو اس منصب کا اہل سمجھتے ہیں ۔‘‘ ({ FR 1681 })
(بیعت عام کے )اس اجتماع میں کوئی بھی گھر سے نہیں بلایا گیا تھا۔سارے لوگ دور دور سے آکر اس لیے اکٹھے ہوئے تھے کہ حضور ﷺ کے انتقال کی خبر سن کر لامحالہ انھیں اسی مسجد نبوی کا رخ کرنا تھا جس سے متصل حجرۂ عائشہؓ میں حضور ﷺ کا جسد اطہر آرام فرما تھا۔ آپ کے دوست کے دل میں آخر حضرت علیؓ ہی کے متعلق یہ سوال کیسے پیدا ہوا کہ انھیں وہاں بلایا گیا تھا یا نہیں ؟ کیا وہاں اور سب لوگ گھروں سے آدمی بھیج بھیج کر منگوائے گئے تھے؟ اور کیا آپ کے دوست کا خیال یہ ہے کہ حضورﷺ کی وفات کے دوسرے ہی روز حضرت علی ؓصبح کی نماز میں بھی شریک نہ ہوئے اور دن بھر اس مقام سے بھی غائب رہے جہاں سرکار ﷺ کی تجہیز وتکفین اور قبر مبارک کی تیاری کا کام ہورہا تھا؟ (ترجمان القرآن،فروری۱۹۵۹ء)