جواب
آپ کا عنایت نامہ ملا۔ آپ نے جو سوالات چھیڑے ہیں ،ان کا مفصل جواب دوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک طویل مضمون لکھوں جس کے لیے میرے پاس وقت نہیں ۔ اور مختصر جواب دوں تو وہ آپ کو مطمئن کرنے میں اس سے زیادہ ناکام ہوگا جتنی اس تقریر کی رپورٹ ناکام ہوئی ہے جس پر آپ نے یہ سوالات اٹھائے ہیں ۔کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ آپ میرے یہ خیالات معلوم کرنے کے بعد خود اس مسئلے پر مطالعہ کرتے اور اصل حقائق معلوم کرنے کی کوشش کرتے؟
آ پ کو شاید معلو م نہیں ہے کہ امام ابو حنیفہؒ جیسے محتاط فقیہ کی راے بھی یہی تھی کہ حضرت علیؓ کی جتنی لڑائیاں بھی مختلف گروہوں سے ہوئیں ، ان میں حق حضرت علیؓ ہی کے ساتھ تھا۔ بلکہ جنگ صفین میں حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت کے بعد ہی علماے اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہوگیا تھا کہ فریق مقابل کی حیثیت باغی گروہ کی ہے، کیوں کہ حضور ﷺنے پیش گوئی فرمائی تھی کہ عمار بن یاسر کو ایک فئہ باغیہ قتل کرے گی۔({ FR 1603 }) آپ نے اس بات کو بھی فراموش کردیا کہ نبیﷺ کی ایک اور پیش گوئی کی رو سے خلافت کا دَور حضور ﷺ کے بعد تیس سال تک تھا اور اس کے بعد ملوکیت شروع ہوئی۔ اس اعتبار سے حضرت علیؓ کی خلافت کو خود حضور ﷺ کی توثیق حاصل ہے اور امیر معاویہؓ کی حکومت خلافت کے بجاے بادشاہی قرار پاتی ہے۔ آپ نے یہ بات بھی نظر انداز کردی کہ علماے اہل سنت بالاتفاق حضرت علیؓ کو چوتھا خلیفۂ راشد مانتے ہیں ۔ اس کو انھوں نے عقائد اہل سنت کی کتابوں میں ثبت کیا ہے اور صدیوں سے منبروں پر اس کا اعلان ہورہا ہے،تاکہ شیعہ اور خوارج سے اہل سنت کے مسلک کا امتیاز واضح ہو۔اس کے برعکس مجھے کسی ایک بھی قابل ذکر عالم کا نام معلوم نہیں ہے جس نے امیر معاویہؓ کو خلفاے راشدین میں شمار کیا ہو۔ آپ نے اس بات کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا کہ تمام فقہاے اہل سنت اپنی کتابوں میں خلفاے اربعہ کے فیصلوں کے نظائر سے استدلا ل کرتے ہیں ،مگر بنی امیہ میں سے حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے فیصلوں کے سوا انھوں نے اور کسی کے فیصلوں کا حوالہ فقہی مسائل میں نہیں دیا ہے۔ان امور کو نگاہ میں رکھ کر آپ صحیح نقطۂ نظر سے تاریخ کا مطالعہ کیجیے اور طبقات ابن سعد،طبری،ابن اثیر اور ابن کثیر وغیرہ مآخذ اصلیہ کو پڑھیے۔ اس کے بعد مجھے امید ہے کہ آپ کو مجھ سے کچھ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ (ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۶۲ئ)