حضرت علی ؓ اور فَدَک کی جائداد

آیت تطہیر میں حضرت علی ؓ شامل ہیں یا نہیں ؟اگر ہیں تو فدک کی جائداد مانگتے وقت وہ حق پر تھے یا نہیں ؟میں یہ سمجھتا ہوں کہ آیت تطہیر میں شامل ہونے کی وجہ سے حضرت علیؓ کی طرف سے کسی وقت بھی ایسی بات یعنی مطالبۂ فدک کا گمان نہیں ہوسکتا۔وضاحتاً دو صورتیں پیدا ہیں ۔ ایک فدک کا مانگنا، دوسرے فدک کا نہ دیا جانا… ایسی صورت میں صرف ایک ہی چیز درست ہوسکتی ہے۔ یا تومانگنا،یا نہ دیا جانا۔اس میں کون سی چیز صحیح ہے۔ترجمان القرآن بابت ماہ نومبر۱۹۵۸ء میں حضرت علیؓ کی طرف آپ نے یہ کئی جگہ اشارہ کیا ہے کہ حضرت علیؓ کو علم تھا کہ رسولؐ کی میراث نہیں ہوتی، پھر بھی انھوں نے حضرت عمرؓ کے زمانے میں اس کا مطالبہ کیا، یہ کہاں تک درست ہوسکتا ہے؟
جواب

آیت تطہیر میں بلاشبہہ حضرت علیؓ شامل ہیں ،اور خدا نخواستہ کوئی مومن بھی ان کے رجس(اخلاقی واعتقادی گندگی) میں مبتلا ہونے کا قائل نہیں ، بلکہ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن حضور ﷺ کی میراث کے اس مقدمے میں آخر رجس اور طہارت کی بحث پیدا ہونے کاکیا محل ہے۔ نیک نیتی کے ساتھ بھی تو ایک حکم کا منشا سمجھنے اور ایک معاملۂ خاص پر اس کو منطبق کرنے میں ان کے اور حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ کے درمیان اختلاف ہوسکتا تھا۔اس سے لازماًیہی معنی کیوں نکالے جائیں کہ انھوں نے دانستہ رسول اﷲ ﷺ کے فرمان کی خلاف ورزی کرتے ہوئے میراث رسول کا مطالبہ کیا؟
بہرحال اس معاملے میں دو واقعے ناقابل انکار ہیں ۔ ایک یہ کہ اہل بیت کی طرف سے میراث کامطالبہ ہوا،اور اس مطالبے میں سیدہ فاطمہؓ ،حضرت علیؓ اور حضرت عباسؓ تینوں شامل ہیں ۔ دوسر ے یہ کہ جب پانچ سال تک حضرت علیؓ خود خلیفہ تھے اور حجاز( جہاں حضور ﷺ کی تمام متروکہ جائداد واقع تھی)پوری طرح ان کے تحت اختیار تھا، اس وقت انھوں نے بھی حضور ﷺ کی میراث تقسیم نہیں کی۔ اب ان دونوں واقعات کی جو توجیہ آپ کے دوست کرنا چاہیں ، کر لیں ۔ ہم اس کی جو توجیہ کرتے ہیں ، اس میں رجس کے کسی شائبے کی گنجائش نہیں پائی جاتی۔ ہمارے نزدیک ابتدائً یہ مطالبہ کسی غلط فہمی کی وجہ سے اٹھا تھا(اورغلط فہمی قطعاًکوئی اخلاقی یا اعتقادی گندگی نہیں ہے)، بعد میں جب حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؆ نے پوری طرح اس معاملے کی حقیقت واضح کر دی، تو حضرات اہل بیتؓ بھی مطمئن ہوگئے، ورنہ کوئی وجہ نہ تھی کہ حضرت علیؓ اپنے زمانۂ خلافت میں شیخین کے فیصلے کو ناجائز سمجھتے اور پھر بھی اس کو بدل کر حق داروں تک ان کا حق پہنچانے سے احتراز کرتے۔ ہم حضرت علیؓ کو اس سے بالا تر مانتے ہیں کہ وہ ایک چیزکو باطل سمجھتے ہوں اور پھر قصداً اس پر قائم رہیں ، اور ایک چیز کو نہ صرف اپنا بلکہ دوسرے حق داروں کا بھی حق جانتے ہوں اور پھر بھی اسے ادا نہ کریں ۔یہ بلاشبہہ رجس ہے جس کے ادنیٰ غبار سے بھی ہم اہل بیت اطہار کے دامن کو آلودہ نہیں مان سکتے۔ (ترجمان القرآن،فروری ۱۹۵۹ء)