جواب
یہ منکرین حدیث دراصل جہل مرکب میں مبتلا ہیں ۔جس چیز کو نہیں جانتے،اُسے جاننے والوں سے پوچھنے کے بجاے عالم بن کر فیصلے صادر کرتے ہیں اورپھر انھیں شائع کرکے عوام الناس کو گمراہ کرنا شروع کردیتے ہیں ۔ان کی گمراہ کن تحریریں اکثر ہماری نگاہ سے گزرتی رہتی ہیں اور ان کا کوئی اعتراض ایسا نہیں ہے جس کو دلائل سے ردّ نہ کیا جاسکتا ہو۔لیکن جس وجہ سے مجبوراًخاموشی اختیار کرنی پڑتی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ یہ لوگ اپنی بحث میں بالعموم بازاری غنڈوں کا سا طرز اختیار کرتے ہیں ۔ان کے مضامین پڑھتے وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی شخص ایک غلاظت بھری جھاڑو ہاتھ میں لیے کھڑا ہو اور زبان کھولنے کے ساتھ ہی مخاطب کے منہ پر اُس جھاڑو کا ایک ہاتھ رسید کردے۔ظاہر ہے کہ ایسے لوگوں کے منہ لگنا کسی شریف آدمی کے بس کی بات نہیں ہے اور نہ اس قماش کے لوگ اس لائق سمجھے جاسکتے ہیں کہ ان سے کوئی علمی بحث کی جائے۔
بہرحال ہم اس کے لیے تیار ہیں کہ جن شریف آدمیوں کے دل میں ان فتنہ پردازوں کی تحریروں سے کوئی شبہہ پیدا ہوجائے،ان کے شبہات رفع کرنے کی کوشش کریں ، اگرچہ یہ بات ہماری توقعات کے خلاف ضرور ہے کہ شریف اور معقول لوگ ان کے بے ہودہ طرز کلام کو دیکھنے کے باوجود ان کی باتوں کو وزن دینے لگیں ۔
جس واقعے کے متعلق آپ نے سوال کیا ہے،اُس کی اصلیت یہ ہے کہ حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بارے میں مدینہ کے منافقین نے یہ افواہ اُڑا دی تھی کہ اپنے چچا زاد بھائی سے ان کا ناجائز تعلق ہے۔ رفتہ رفتہ یہ بات نبی ﷺ کے کانوں تک بھی پہنچی۔ آپؐ نے حضرت علی ؓ کو حکم دیا کہ إِ ذْھَبْ فَاضْرِبْ عُنُقَہُ({ FR 1921 })…’’جائو اگر تم اُس کو ماریہ کے پاس پائو تواُس کی گردن مار دو۔‘‘ بعید نہیں کہ کہنے والے نے حضور ﷺ سے یہ کہا ہوکہ وہ وہاں موجود ہے،آپؐ کسی کو بھیج کر دیکھ لیں ،اور اس پر حضورﷺ نے فرمایا ہو کہ اگر وہ وہاں کسی نامناسب حالت میں پایا جائے تو جان سے مار دو۔ اس حکم کے مطابق حضرت علیؓ جب وہاں پہنچے تو دیکھا کہ وہ ایک حوض میں نہا رہاہے۔آپ ؓنے جاتے ہی اُسے ڈانٹا اور ہاتھ پکڑ کر حوض میں سے کھینچ لیا۔ ظاہر ہے کہ جو شخص پانی سے بھرے ہوئے حوض میں اُترا ہو،اُس کے بارے میں باہر سے دیکھنے والے کو بیک نظر معلوم نہیں ہوسکتا کہ وہ ننگا ہے یاستر ڈھانکے ہوئے ہے۔جب حضرت علیؓ نے اُس کو باہر کھینچا تو یکایک آپ ؓ کی نظر اُس کے ستر پر پڑی اور معلوم ہوا کہ وہ تو مقطوع الذکر ہے۔آپؓ نے اُسی وقت اُسے چھوڑ دیا اور آکر حضور ﷺ کو حقیقت حال بتادی۔
اب فرمایئے کہ اس واقعے پر کیا اعتراض ہے اور کس پہلو سے ہے؟یہ بات بھی میں عرض کردوں کہ سند کے لحاظ سے یہ روایت ضعیف نہیں ہے۔
بعض محدثین نے اس کی یہ وجہ بیان کی ہے کہ اُس شخص کے مخنث ہونے کا حال حضور ﷺ کو معلوم تھا اور آپؐ نے حضرت علیؓ کو قتل کا حکم دے کر صرف اس لیے بھیجا تھا کہ جب حضرت علیؓ یہ حکم اُسے سنائیں گے تو وہ اپنا راز خود کھول دے گا، اور اس طرح سب لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ ساری افواہیں بالکل بے بنیاد ہیں ۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر یہ بات نہ بھی ہو تب بھی واقعہ بجاے خود ناقابل اعتراض ہے۔ کیا کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اگر وہ اپنی آنکھوں سے رسول خدا ﷺ کی بے حرمتی ہوتے دیکھے، اور وہ بھی ایسی سخت بے حرمتی،تو وہ ایسے آدمی کو قتل کردے؟اپنی ماں ،یا بیوی یا بہن کے ساتھ ایسا فعل ہوتے دیکھنا بھی دنیا میں ایک معقول وجہ اشتعال مانا جاتا ہے۔کجا کہ پیغمبر خدا ﷺ کے بستر پر ایسا معاملہ دیکھا جائے۔ تاہم جس شخص کو اس پر اعتراض ہو،اُس سے پوچھیے کہ اگر اُس کی بیوی کے متعلق ایسی گھنائونی خبر اُسے پہنچے تو اُس کا ردعمل کیا ہوگا؟
(ترجمان القرآن، مارچ۱۹۵۲ء)