مفکراسلام مولانا مودودیؒ کے مجھ جیسے ہزاروں نوجوان مرہون منت ہیں، جن کی نورانی تحریروں نے ہمیں ظلمت سے روشنی کی طرف پہنچایا۔مولانا مرحوم سے حسن ظن کے باوجود ان کی بعض تحریریں ایسی ہیں جو راقم الحروف کی نظر میں ان کے مرتبہ سے فروتردکھائی دیتی ہیں۔ اپنی علمی کم مائیگی اورمولانا مرحوم کے گہرے علم اوروسعت نظر کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے مناسب سمجھا کہ خود کوئی مفروضہ قائم کرنے سے پہلے آپ کی طرف رجوع کروں۔ سیدمودودی نے مولانا عبدالماجددریابادی مرحوم کی تصنیف’اسلامی تمدن کی کہانی خود اس کی زبانی‘ پرتبصرہ کرتے ہوئے تحریر فرمایاہے
’’دوایک مقام نگاہ سے ایسے بھی گزرے جہاں مصنف کا قلم راست روی سےہٹ گیا ہے مثلاً ایک جگہ خلیفہ اسلام کے لیے ڈکٹیٹر کالفظ استعمال کرتے ہیں جو بالکل ہی نامناسب ہے۔‘‘
(ادبیات مودودی،ص۴۰۱)
اس سے واضح ہوجاتاہے کہ مولانا مرحوم کے نزدیک ’ڈکٹیٹر‘ایک ناپسنددیدہ اصطلاح ہے۔ اب مولانا خود جس انداز سے ایک پیغمبرکو ڈکٹیٹر کے ساتھ تشبیہ دے رہے ہیں وہ ایک طالب علم کوشش وپنج میں مبتلا کرتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں
’’یہ محض وزیرمالیات کے منصب کامطالبہ نہیں تھا جیساکہ بعض لوگ سمجھتے ہیں بلکہ یہ ڈکٹیٹرشپ کا مطالبہ تھا اور اس کے نتیجے میں سیدنا یوسفؑ کو جوپوزیشن حاصل ہوئی وہ قریب قریب وہی پوزیشن تھی جو اس وقت اٹلی میں مسولینی کو حاصل ہے۔‘‘ (تفہیمات دوم، ص۱۲۲)
اگر خلیفہ اسلام کو ڈکٹیٹرکہنا یا لکھنا ’بالکل ہی نامناسب ‘ ہے تو ایک نبی کو ڈکٹیٹرکہنا کس طرح مناسب ہوگا؟ اس تضاد کو میں دور نہیں کرسکا۔ اگر آپ دورکرسکتے ہوں تو عنایت ہوگی۔
جواب
میں پہلےیہ بات واضح کردوں کہ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی رحمۃ اللہ علیہ معصوم نہ تھے، اس لیے ان کےقلم سے نامناسب جملے نکلے سکتے تھے اور نکلے ہوں گے۔ اس وضاحت کے بعد ایک اصولی بات عرض کرتاہوں۔ اگر آپ نے اس کو ذہن میں محفوظ رکھا تو آئندہ بھی آپ بعض الجھنوں سے بچ سکیں گے۔ وہ بات یہ ہے کہ کسی مسئلے پر خود اپنی طرف سے اظہار خیال کی نوعیت کچھ اور ہوتی ہے اور کسی شخص کے اعتراض یا شبہ کے جواب میں نوعیت مختلف ہوجاتی ہے۔ یعنی یہ کہ اس وقت معترض کےذہن اوراس کے فہم کی رعایت کرنی پڑتی ہے اور ایسی زبان واصطلاحات میں بات کہنی ہوتی ہے جس کو وہ آسانی سے سمجھ لے۔
اب میں آپ کی الجھن کے بارے میں اپنا خیال عرض کرتاہوں۔ میں نے مولانا عبدالماجد دریابادی مرحوم کی وہ کتاب نہیں پڑھی ہے اور نہ اس پر مولانا مودودی کا تبصرہ میری نظر سے گزراہے۔ ’ادبیات مودودی‘ بھی میرے پاس نہیں ہے اس لیے میں کہہ نہیں سکتا کہ مولانا مودودی نے خلیفہ اسلام کے لیے ڈکٹیٹر کے لفظ کو کیوں نامناسب لکھا تھا ویسے سمجھ میں یہ آتا ہے کہ خلیفہ اسلام چوں کہ اسلامی شریعت کا پابند اور جمہورامت کے سامنے جواب دہ ہوتاہے اس لیے اس کو ڈکٹیٹر کہنا مناسب نہیں ہے۔ کیوں کہ ڈکٹیٹراپنی مرضی کے سواکسی اورچیز کا پابند نہیں ہوتا۔
تفہیمات دوم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے مطالبہ کے لیے مولانا مودودی نے ڈکٹیٹرشپ کا جو لفظ لکھا ہے اوران کی پوزیشن کو ڈکٹیٹرکی پوزیشن قراردے کر مسولینی کاجو ذکر کیا ہے وہ اس شخص کے ذہن کو سامنے رکھ کر کیا ہے جس کو وہ جواب دے رہے تھے۔اوراس وقت چوں کہ ایک نام کی بادشاہت کے تحت مختارمطلق صرف مسولینی تھا اس لیے اس کا ذکر کیا ہے تاکہ مخاطب آسانی سے سمجھ لے۔ جس وقت مولانا نے وہ جواب لکھا ہے اس وقت حضرت یوسف علیہ السلام کے مطالبہ کو وزارت مالیات یا وزارت غذائیت کا مطالبہ قرار دیاجارہاتھا اور ان کو حکومت مصر میں وزیر مال کی حیثیت سے پیش کیاجارہاتھا، اور آج تک کچھ لوگ یہی سمجھتے ہیں۔ مولانا مودودی نےبھی موجودہ اصطلاحات ہی میں اس شبہے کاجواب دیاہے۔ انھوں نے حضرت یوسفؑ کو ڈکٹیٹر نہیں لکھا ہے بلکہ یہ لکھا ہےکہ ان کو جو پوزیشن حاصل ہوئی تھی وہ وزیرمال کی نہیں بلکہ ڈکٹیٹرجیسی تھی اور مسولینی کا ذکر کرکے انھوں نے مسئلے کوبالکل واضح کر دیا ہے۔ آپ خود غور کریں کہ جب موجودہ اصطلاحات میں گفتگو کی جارہی ہو تو مخاطب کو کس طرح مطمئن کیاجائے؟ اس تفصیل کے بعد بھی آپ کو اطمینان نہ ہو اور یہ سمجھتے ہوں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کے لیے کسی طرح اس لفظ کا استعمال مناسب نہیں ہے توآپ کو اس کاحق ہے کیوں کہ مولانا مودودی معصوم نہ تھے۔
(فروری ۱۹۸۲ءج۶۸ش۲)