ایک جدید تعلیم یافتہ مسلمان کی زبانی معلوم ہواکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پیدائشی نام قطعم تھا۔ باقی نام مختلف وجوہ سے رکھے گئے۔ مثلاً محمد اور احمد کے نام سے آپ کو اولاً حجراسود کے نصب کیے جانے کے موقع پر پکارا گیا،چوں کہ آپ نے عاقلانہ ومنصفانہ فیصلہ کیاتھا۔ مجھ حافظہ سے محروم گنہ گار کو کچھ ایسا یاد پڑتاہے کہ جنابؐ کی ولادت کی پیشین گوئیاں سیکڑوں سال پرانی مذہبی کتب میں انھیں ناموں سے کی گئی ہیں۔ بہ ہرحال جو حقیقت ہوبتاکرعنداللہ ماجور ہوں۔ صاحب مذکور کو اپنی معلومات پربڑا فخر ہے۔ کہتے تھے کہ کسی مولوی سے پوچھنا،غریب کو پتا بھی نہ ہوگا۔
جواب
آپ کے جدید تعلیم یافتہ مسلمان کی معذوری یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ اسلام اور نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی معلومات مستشرقین کی کتابوں سے حاصل کررہے ہیں۔ یہ بات جو انھوں نے کہی ہے کہ غریب مولوی کو اس کا پتا بھی نہ ہوگا۔ وہ شاید اسی وجہ سے کہی ہوگی کیوں کہ غریب مولوی تواسلام اور پیغمبراسلام کے بارے میں معلومات قرآن، حدیث اور ائمہ سیرت کی کتابوں سے حاصل کرتاہے، اس کو کیا معلوم کہ میور صاحب نے کیا کہا ہے، مارگولیتھ صاحب نے کیا فرمایا ہے اور دوسرے مستشرقین کا کیا ارشاد ہے۔ آپ کو جدید تعلیم یافتہ مسلمان صاحب سے پوچھنا چاہیے تھا کہ جس بات کا وہ انکشاف فرمارہے ہیں اس کا ماخذ کیا ہے؟ انھیں یہ کہاں سے معلوم ہوا کہ حضورؐ کا پیدائشی نام قطعم تھا اور حجر اسود نصب کرنے کے بعد محمد واحمد سے پکارے گئے؟ ان سے کہیے کہ اسلام اور پیغمبراسلام کےبارے میں مستشرقین کی کتابیں سند نہیں ہیں۔ وہ قرآن وحدیث اور ائمہ سیرت کی لکھی ہوئی کتابوں کا مطالعہ کریں۔ وہ کم سے کم مولانا سلیمان منصورپوری کی رحمۃ للعالمین، مولانا شبلی نعمانی کی سیرت النبی اورمولانا عبدالرؤف دانا پوری کی اصح السیر کامطالعہ کرلیں۔
جس شخص نے بھی یہ لکھا ہے کہ حضورؐ کانام پیدائش کے بعد قطعم رکھاگیا تھااس نے ایک بالکل بے سند اورغلط بات لکھی ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ ولادت باسعادت کے بعد حضورؐ کانام محمد ہی رکھاگیاتھا۔حضورؐ کے یہ دونوں نام محمد اوراحمد قرآن میں بھی موجود ہیں۔ یہ آپ کو ٹھیک یادہے کہ حضورؐ کی ولادت سے سیکڑوں سال پہلے محمد اور احمد کے ناموں ہی سے آپ کی آمد کی پیشین گوئیاں آسمانی کتابوں میں موجود تھیں۔ احمد کے نام سے پیشین گوئی کا ذکرقرآن کی اس آیت میں موجود ہے
وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللہِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىۃِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُہٗٓ اَحْمَدُ۰ۭ (الصف۶)
یہ بات یہودکو بھی معلوم تھی اور مدینہ کے یہودی آپ کی آمد کے منتظر بھی تھے۔ سیرت کی سب سے قدیم کتاب، سیرت ابن ہشام جلداول میں یہ واقعہ نقل کیاگیا ہے کہ جب آپ کی ولادت ہوئی تو مدینے کے ایک یہودی نے اپنے قلعے کی چھت سے چیخ چیخ کر دوسرےیہودیوں کو اپنے پاس جمع کیا اور ان سے کہا کہ گزشتہ شب کو،آنے والے نبی، احمد، کی ولادت کا ستارہ طلوع ہوگیا یعنی آنے والے نبی جن کا نام ’احمد‘ ہے، پیداہوچکے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت سے پہلے مکے کے ممتاز لوگوں کو غالباً یہودی اور عیسائی علماء سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مکے میں ایک نبی کی پیدائش ہونے والی ہے، جن کا نام محمدہوگا۔ یہ سن کر متعدد افراد نے اپنے پیدا ہونے والے بیٹوں کے نام محمد رکھ دیے تھے۔ محدثین نے ایسے پندرہ بیس افراد کا ذکر کیا ہے جن کے نام حضورؐ کی پیدائش سے پہلے محمد رکھے گئے تھے۔ علامہ ابن حجرؒ نے فتح الباری جلد ششم میں متعدد نام شمارکرائے ہیں۔
سیرت ابن ہشام میں یہ واقعہ بھی موجود ہے کہ حضورؐ کی والدہ کو آپ کی پیدائش کے وقت کسی انجان کہنے والے نے یہ بتایا تھا کہ اس بچے کانام محمدرکھنا۔ چناں چہ انھوں نے اس کی اطلاع آپ کے دادا عبدالمطلب کو کردی اور انھوں نے آپ کا نام محمد ہی رکھا۔ (اکتوبر۱۹۶۶ء،ج ۳۷،ش۴)