جواب
آپ جس طریقے سے سوال کررہے ہیں ،اس سے شبہہ ہوتا ہے کہ صورتِ واقعہ اس سے مختلف ہے اور آپ اسے ایک معصوم شکل میں پیش کرکے استفسار کررہے ہیں ۔
تبلیغ کے معنی یہ نہیں ہیں کہ موقع ومحل کو دیکھے بغیر آدمی ہر جگہ ایک ہی طرح کی شدت برتے اور ہر مخاطب کے سامنے وہ انتہائی باتیں کہہ ڈالے جن کا تحمل ابتدائی مراحل میں کم ہی کوئی شخص کرسکتا ہے ۔جہاں لوگ توحید ورسالت اور آخرت کے ابتدائی تصورات تک سے بے گانہ ہوکر رہ گئے ہوں وہاں یکایک ان کے سامنے ان عقائد کا محض مکمل تصور ہی نہیں بلکہ اسے تسلیم کرنے کے تمام لوازم اور عملی تقاضے تک پیش کرڈالنا اور پھر اس پر اتنا اصرار کرنا کہ لوگوں میں چڑ پیدا ہوجائے، حکمت ِ تبلیغ کے خلاف ہے۔
اگر آپ کو، یا آپ کے کسی دوست کو،کسی وکیل یا جج کے ہاں بچوں کو پڑھانے کا اتفاق ہوا ہے تو آپ نے کیسی غلطی کی ہے کہ اس کے بچوں کو چن چن کر وہی آیتیں یادکرانی شروع کردیں جو آپ نے نقل فرمائی ہیں ، اور اس طرح اسے مجبور کردیا کہ یا تو وہ قرآن کے مقابلے میں آکھڑا ہو، یا نہیں تو خود اپنے بچوں کی نگاہ میں کافر وفاسق قرارپائے۔ یہ طریقہ اختیار کرنے کے بجاے اگر آپ بتدریج ان بچوں کو اسلامی عقائد کے مبادی سے، پھر ان کی تفصیلات سے،پھر ان کے لوازم اور تقاضوں اور مطالبوں سے آگاہ کرتے ،اور ساتھ ساتھ قرآن مجید کے ذریعے سے یہ چیزیں ان کو سمجھاتے چلے جاتے تو خطرے کا الارم بھی نہ بجتا،بچوں کو دین کی تعلیم بھی اچھی طرح مل جاتی، اور ان کے والد صاحب چاہے جو کچھ بھی بنے رہتے،مگر ان کی اولاد درست ہوجاتی۔ آپ نے اِس کے برعکس کم سمجھ بچوں کو ایسی باتیں یاد کرانی شروع کردیں جن کی بِنا پر وہ ہر جگہ اُلٹے سیدھے فتوے جڑنے لگے ہوں گے۔یہی چیز خطرے کی گھنٹی بن گئی اور اس نے وہ صورتِ حال پیداکردی جس میں آپ کو یہ سوال کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔اب ظاہر ہے کہ وہ بچے کسی ایسے ہی معلم کے حوالے کیے جائیں گے جو مذہب کا ایسا تصور ان کے ذہن میں بٹھائے جس کی رُو سے خدا اور قیصر کے حقوق الگ الگ ہوں او ر ساتھ ساتھ بے کھٹکے ادا کیے جا سکیں ۔
(ترجمان القرآن ،جنوری،فروری ۱۹۴۵ء)