’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ اور’’پاکستان ‘‘کافرق

آپ حکومت ِالٰہیہ کے خواہاں ہوتے ہوئے پاکستان کی مخالفت کرتے ہیں ۔ کیا آپ اپنی حکومت ِالٰہیہ ملکی حدود کے بغیر ہی نافذ کرسکیں گے؟یقینا ًنہیں ، تو پھر آپ کی حکومتِ الٰہیہ کے لیے ملکی حد ود بہرحال وہی موزوں ہوسکتی ہیں جہاں مسٹر جناح اور ان کے ساتھی پاکستان کے لیے جدوجہد کررہے ہیں ۔آپ پاکستان کی حدود کے علاوہ کیوں سارے ہندستان میں حکومت الٰہیہ نافذ کریں گے؟نیز یہ گرہ بھی کھولیے کہ آپ موجودہ ماحول میں اس طرزِ حکومت کو چلانے کے لیے ایسے بلند اخلاق اور بہترین کیرکٹر کی شخصیتیں کہاں سے پیدا کریں گے؟جب کہ حضرت ابو بکر صدیقؓ،حضرت عمرؓ اور حضرت عثمان غنیؓ جیسے عدیم المثال بزرگ اسے چند سالوں سے زیادہ نہ چلاسکے۔چودہ سو سال کے بعد ایسے کون سے موافق حالات آپ کے پیشِ نظر ہیں جن کی بِنا پر آپ کی دُور رَس نگاہیں حکومتِ الٰہیہ کو عملی صورت میں دیکھ رہی ہیں ؟اس میں شک نہیں کہ آپ کا پیغام ہر خیال کے مسلمانوں میں زور شور سے پھیل رہا ہے اور مجھے جس قدر بھی مسلمانوں سے ملنے کا اتفاق ہوا ہے ،وہ سب اس خیال کے حامی ہیں کہ آپ نے جو کچھ کہا ہے وہ عین اسلام ہے۔ مگر ہر شخص کا اعتراض یہی ہے جو میں نے گزشتہ سطورمیں پیش کیا ہے، یعنی آپ کے پاس عہدِ خلافت ِ راشدہ کی اُصولی حکومت چلانے کے لیے فی زمانہ کیرکٹر کے آدمی کہاں ہیں ؟ پھر جب کہ وہ بہترین نمونے کی ہستیاں اس نظام کو نصف صدی تک بھی کام یابی سے نہ چلا سکیں تو اس دور میں اس طرز کی حکومت کا خیال خوش فہمی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے؟
جواب

’’حکومتِ الٰہیہ‘‘ اور’’پاکستان ‘‘کے فرق کے متعلق جو سوال آپ نے کیا ہے،اس کا جواب آپ میری کتابوں میں پاسکتے تھے مگر وہ شاید آپ کی نظر سے نہیں گزریں ۔پاکستان کے مطالبے کی بنیاد قومیت کے اُصول پر ہے،یعنی مسلمان قوم کے افراد جہاں اکثریت میں ہوں ،وہاں انھیں اپنی حکومت قائم کرنے کا حق حاصل ہو۔بخلاف اس کے تحریکِ حکومتِ الٰہیہ کی بنیاد اسلام کا اُصول ہے۔ پاکستان صرف ان لوگوں کو اپیل کرسکتا ہے جو مسلمان قوم سے تعلق رکھتے ہیں ۔ لیکن حکومت الٰہیہ کی دعوت تمام انسانوں کو اپیل کرسکتی ہے،خواہ وہ پیدائشی مسلمان ہوں یا پیدائشی ہندو یا کوئی اور پاکستان صرف وہیں قائم ہوسکتا ہے جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے اور اس بات کی بہت کم توقع ہے کہ اس تحریک کے نتیجے میں ایک خالص اسلامی حکومت قائم ہوگی،کیوں کہ خالص اسلامی حکومت کا قیام جس اخلاقی انقلاب پر منحصر ہے، وہ پاکستان کی تحریک سے رُونما نہیں ہوسکتا۔ لیکن حکومتِ الٰہیہ اس کی محتاج نہیں ہے کہ کسی جگہ مسلمان قوم کی اکثریت پہلے سے موجود ہو۔ وہ تو ایک اخلاقی اور ذہنی اور تمدنی انقلاب کی دعوت ہے اور سارے انسانوں کے لیے خود انھی کی فلاح کے چند اصول پیش کرتی ہے۔ اس دعوت کو اگر پنجاب یا سندھ سب سے پہلے آگے بڑھ کر قبو ل کرلیں تو حکومت ِ الٰہیہ یہاں قائم ہوسکتی ہے اور اگر مدراس یا بمبئی یا کوئی دوسرا علاقہ پیش قدمی کرکے اسے قبول کرلے تو حکومت ِ الٰہیہ وہاں قائم ہوسکتی ہے۔ہم اس دعوت کو مسلمان، ہندو، سکھ، عیسائی،ہر ایک کے سامنے پیش کرتے ہیں ۔ ہمارے نزدیک یہ مسلمانوں کی کوئی قومی جائدا د نہیں ہے ،بلکہ تمام مسلمانوں کی فلاح کے چند اُصول ہیں ۔ہوسکتا ہے کہ پیدائشی مسلمان اس دعوت کو قبول کرنے میں کوتاہی دکھائیں اور پیدائشی ہندو آگے بڑھ کر اسے قبول کرلیں ۔ ( ترجما ن القرآن، نومبر،دسمبر ۱۹۴۴ء)