جواب
قریب قریب اسی مضمون کے متعدد سوالات ہندستان کے مختلف حصوں سے بھی حال میں ہمارے پاس آئے ہیں ۔ اس سے اندازہ ہوا کہ آج کل جگہ جگہ یہ سوال مسلمانو ں کے سامنے چھیڑا جا رہا ہے۔ ان معترضین میں کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جن کا مقصد کسی نہ کسی طرح اسلام پر اعتراض جڑنا ہوتا ہے اور دنیا میں کوئی جواب بھی ان کے لیے تسلی بخش نہیں ہو سکتا۔ البتہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں حقیقت حال سے ناواقفیت کی بِنا پرنیک نیتی کے ساتھ شکوک پیدا ہوتے ہیں ۔ایسے لوگوں کے لیے یہ بات بالکل کافی ہے کہ آپ انھیں معقولیت کے ساتھ حقیقت سے آگاہ کردیں ۔
بت پرستی کی حقیقت یہ ہے کہ مشرکین کے مختلف گروہ اﷲ تعالیٰ کے ساتھ بعض دوسری ہستیوں کو بھی خدائی صفات اور اختیارات کا حامل سمجھتے ہیں ،یا یہ خیال کرتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ان کے اندر حلول({ FR 2147 }) کیا ہے،اور اس غلط عقیدے کی بنا پر وہ ان ہستیوں کے مجسمے اور آستانے بنا کر ان کے آگے عبادت کے مراسم ادا کرتے ہیں ۔ خود اﷲ تعالیٰ کا بت آج تک کسی مشرک قوم نے نہیں بنایا ہے اور نہ اس کی پرستش کے لیے کبھی یہ طریقہ اختیار کیا گیا ہے کہ اس کی کوئی خیالی شکل تیار کرکے اس کے آگے سربسجود ہوں ۔دنیا کے تمام مشرکین قریب قریب صاف طور پر یہ سمجھتے رہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ شکل وصورت سے منز ہ ہے۔اس کا اور دوسرے معبودوں کا فرق ان کے عقائد اور مذہبی مراسم میں نمایاں طریقے سے تسلیم کیا گیا ہے۔اسی لیے بت صرف دوسرے معبودوں ہی کے بناے گئے ہیں ، اﷲ کو اس سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے۔
اب رہی یہ بات کہ دنیا بھر کے مسلمان خانہ کعبہ ہی کی طرف رخ کرکے کیوں نماز پڑھتے ہیں ، تو اس کا سیدھا ساجواب یہ ہے کہ یہ مرکزیت او رتنظیم کی خاطر ہے۔ اگر تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے ایک مرکز اور ایک رخ متعین نہ کردیا گیا ہوتا تو ہر نماز کے وقت عجیب افراتفری برپا ہوتی۔ انفرادی نمازیں ادا کرتے وقت ایک مسلمان کا منہ مغرب کی طرف ہوتا تو دوسرے کا مشرق کی طرف، تیسرے کا شما ل کی طرف، اور چوتھے کا مغرب کی طرف۔ اور جب مسلمان نماز باجماعت کے لیے کھڑے ہوتے تو ہر مسجد میں ہر نماز سے پہلے اس بات پر ایک کانفرنس ہوتی کہ آج کس طرف رُخ کرکے نماز پڑھی جائے۔ یہی نہیں بلکہ ہر مسجد کی تعمیر کے وقت ہر محلے میں جھگڑا برپا ہوتا کہ مسجد کا رُخ کس طرف ہو! اﷲ تعالیٰ نے ان سارے امکانات کو ایک قبلہ مقرر کرکے ہمیشہ کے لیے ختم کر دیا، اور قبلہ اسی جگہ کو بنایا جسے فطرتاً مرکزیت حاصل ہونی چاہیے تھی،کیوں کہ خدا پرستی کی یہ تحریک اسی جگہ سے شروع ہوئی تھی، اور خداے واحد کی پرستش کے لیے دنیا میں سب سے پہلا معبد وہی بنایا گیا تھا۔
(ترجمان القرآن، نومبر۱۹۶۳ء)