جواب
آپ کا عنایت نامہ مؤرخہ۳ مارچ۱۹۵۰ء مجھے یہاں یکم اپریل کو ملا۔جواب میں مزید تاخیر اس لیے ہوئی کہ میرے پاس خط لکھنے کا کاغذ نہ تھا۔امید ہے کہ میری مجبوری کو پیشِ نظر رکھ کر تاخیرِ جواب سے درگزر فرمائیں گے۔
قرآن مجید کی کسی آیت کے متعلق اگر کوئی سوال پیدا ہو تو سب سے پہلے خود قرآن ہی سے اس کا مفہوم معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اس کے بعد تحقیق کرنا چاہیے کہ کوئی حدیث ِ صحیح بھی اس کی توضیح کرتی ہے یانہیں ۔ اگر ان دونوں ذرائع سے کوئی جواب نہ ملے( جس کا امکان بہت ہی کم ہے) تو البتہ کسی دوسرے ذریعے کی طرف رجوع کرنا درست ہوسکتا ہے۔
ختم نبوت کا ذکر سورۂ الاحزاب میں آیا ہے۔اس کا پس منظر یہ ہے کہ عرب میں منہ بولے بیٹے کو بالکل حقیقی بیٹے کی حیثیت دے دی گئی تھی۔وہ حقیقی بیٹے کی طرح میراث پاتا تھا، منہ بولے باپ کی بیوی اور بیٹیوں سے اسی طرح خلا ملا رکھتا تھا جس طرح ماں بیٹے اور بھائی بہنوں میں ہوا کرتا ہے، اور متبنّٰی بن جانے کے بعد وہ ساری حرمتیں اس کے اور منہ بولے باپ کے درمیان قائم ہوجاتی تھیں جو نسبی رشتے کی بِنا پر قائم ہواکرتی ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ اس رسم کو توڑنا چاہتا تھا۔ اس نے پہلے حکم دیا کہ ’’منہ سے کسی کو بیٹا کہہ دینے سے کوئی شخص حقیقی بیٹا نہیں ہوجاتا۔‘‘ (سورہ الاحزاب، آیت۴-۵) لیکن دلوں میں صدیوں کے رواج کی وجہ سے حرمت کا جو تخیل بیٹھا ہوا تھا،وہ آسانی سے نہیں نکل سکتا تھا۔اس کے لیے ضروری تھا کہ اس رسم کو عملاً توڑ دیا جائے۔
اتفاق سے اسی زمانے میں یہ واقعہ پیش آگیا کہ حضرت زید ؓنے(جو نبی ﷺ کے منہ بولے بیٹے تھے)حضرت زینبؓ کو(جو اُن کے نکاح میں تھیں )طلاق دے دی۔ نبی ﷺ نے محسوس فرمایا کہ یہ موقع ہے اس سخت قسم کی جاہلی رسم کو توڑنے کا،جب تک آپؐ خود متبنّٰی کی مطلقہ بیوی سے نکاح نہ کریں گے، متبنّٰی کو حقیقی بیٹے کی طرح سمجھنے کا جاہلی تخیل نہ مٹ سکے گا۔ لیکن آپ یہ بھی جانتے تھے کہ مدینہ کے منافقین اور اطرافِ مدینہ کے یہوداور مکہ کے کفار اس فعل پر ایک طوفانِ عظیم برپا کردیں گے اور آپ کو بدنام کرنے اور اسلام کو رُسوا کرنے میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھیں گے۔ اس لیے آپؐ عملی اقدام کی ضرورت محسوس کرنے کے باوجود ہچکچا رہے تھے۔آخر کار اﷲ تعالیٰ نے آپﷺ کو حکم دیا اورآپؐ نے حضرت زینبؓ کو اپنے نکاح میں لے لیا۔ اس پر جیسا کہ اندیشہ تھا،اعتراضات اور بہتان طرازی اور افترا پردازی کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا اور خود مسلمان عوام کے دلوں میں بھی طرح طرح کے وسوسے پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ انھی اعتراضات اور وسوسوں کو دو ر کرنے کے لیے سورۂ الاحزاب کے پانچویں رکوع کی آیات ۳۷-۴۰ نازل ہوئیں ۔
ان آیات میں پہلے تو اﷲ تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ یہ نکاح ہمارے حکم سے ہوا ہے اور اس لیے ہوا ہے کہ مومنوں کے لیے اپنے متبنّٰی لڑکوں کی بیوہ اور مطلقہ بیویوں سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہ رہے۔ پھر فرماتا ہے کہ ایک نبی کا یہ کا م نہیں ہے کہ اﷲ کا حکم بجا لانے میں وہ کسی کے خوف سے ہچکچاے۔اس کے بعد اس بحث کو ختم اس بات پر فرماتا ہے کہ
’’محمدﷺ تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، مگر وہ اﷲ کے رسول ہیں اور خاتم النّبیین ہیں ۔‘‘
اس موقع پر یہ فقرہ جو ارشاد فرمایا گیا،اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ معترضین کے جواب میں تین دلائل دینا چاہتا ہے:
اوّل یہ کہ یہ نکاح بجاے خود قابلِ اعتراض نہیں ہے،کیوں کہ جس شخص کی مطلقہ بیوی سے نکاح کیا گیا ہے وہ محمدﷺ کا واقعی بیٹانہ تھا اورآپؐ اس کے حقیقی باپ نہ تھے۔
دوسرے،اگر تم کو یہ شبہہ ہو کہ نکاح جائزہی سہی مگر اس کا کرنا کیا ضرور تھا،تو اس کا جواب یہ ہے کہ محمد ﷺ کے لیے اس جائز کام کو کرنافی الواقع ضروری تھا، کیوں کہ وہ اﷲ کے رسول ہیں اور رسول کو لازم ہے کہ وہ خدا کے قانون کو عملاً جاری کرے اور جو چیزیں بے جا رسم کے طور پر حرام کر دی گئی ہیں ،ان کی حرمت توڑ دے۔
تیسرے، یہ کام اس لیے اور بھی زیادہ ضروری تھا کہ محمدﷺ محض نبی ہی نہیں ہیں بلکہ آخری نبی ہیں ۔اگر اب آپؐ کے ہاتھوں یہ جاہلانہ رسم نہ ٹوٹی توپھر قیامت تک نہ ٹوٹ سکے گی۔آپؐ کے بعد کوئی اور نبی آنے والا نہیں ہے کہ جو کسر آپ سے چھوٹ جائے، اسے وہ آکر پورا کر دے۔
اب آپ خود دیکھ لیجیے کہ اس سلسلۂ بیان میں ختم کا حقیقی مفہوم کیا ہے۔اگر اسے نفی کمال کے معنی میں لیا جائے تو یہاں یہ لفظ بالکل ہی بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔موقع ومحل صاف تقاضا کررہا ہے کہ یہاں اس کے معنی سلسلۂ نبوت کے قطعی انقطاع ہی کے ہونے چاہییں ۔اس سیاق وسباق میں یہ کہنے کا آخر مطلب ہی کیا ہوسکتا ہے کہ محمد ﷺ نے یہ شادی اس لیے کی ہے کہ نبوت کے کمالات ان پر ختم ہوچکے ہیں ۔ یہ بات کہی گئی ہوتی تو معترضین فوراًپلٹ کر کہتے کہ خوب ہے یہ کمالِ نبوت جو ایک عورت سے شادی کرنے کا تقاضا کرتا ہے!
اس کے بعد حدیث کو دیکھیے۔نبیﷺ نے خود ختم نبوت کی جو تشریح فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ’’میری اور انبیا کی مثال ایسی ہے جیسے ایک محل تھا جس کی عمارت بہت حسین بنائی گئی تھی، مگر اس میں ایک اینٹ کی جگہ خالی تھی۔اب وہ جگہ میں نے آ کر بھر دی اور عمارت مکمل ہوگئی۔‘‘({ FR 1820 }) یہ بخاری اورمسلم کی متفق علیہ حدیث ہے۔ آپ کو مشکوٰۃ، باب فضائل سیّد المرسلینﷺمیں مل جائے گی۔اس تشریح کی رُو سے نبوت کی عمارت مکمل ہوچکی ہے۔آخری اینٹ کی جگہ بھی بھر چکی ہے۔اب سوال یہ ہے کہ کوئی نئی اینٹ آکر کہاں لگے گی؟عمار ت کے اندر یا اس کے باہر؟
اس کے بعد لغت کی طرف آئیے۔عربی زبان کی کسی مستند لغت کو اُٹھا کر لفظ ختم کے معنی دیکھ لیجیے،آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ جو تأویل میں نے اوپر قرآن اور حدیث کی روشنی میں بیان کی ہے،عربی زبان بھی اس کی تائید کرتی ہے۔ ختم کے اصل معنی مہر لگانے،بند کرنے اورکسی چیز کا سلسلہ منقطع کردینے کے ہیں ۔خَتَمَ اْلِانَاءَکے معنی ہیں :’’برتن کا منہ بند کردیا‘‘۔ خَتَمَ الْعَمَلَ کے معنی ہیں : ’’کام پورا کرکے اس سے فارغ ہو گیا‘‘ خَتَمَ الْکِتَابَ کے معنی ہیں ’’خط پورا کرکے اس پر مہرلگا دی‘‘۔خود قرآن میں منکرین حق کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ خَتَمَ اللہُ عَلٰي قُلُوْبِہِمْ ( البقرہ:۲ )’’خدا نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔‘‘ یعنی ان کے دل قبولِ حق کے لیے بند کردیے گئے ہیں ،نہ ایمان ان کے اندر جاسکتا ہے،نہ کفر اُن میں سے نکل سکتا ہے۔پس حضورؐ کو خاتم النّبیین کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے نبیوں کاسلسلہ مکمل کرکے آپﷺ کو اس پر مہرکے طورپر نصب کردیا ہے۔اب اس سلسلے میں کوئی نیا نبی داخل نہیں ہوسکتا۔({ FR 1716 }) ( نیو سنٹرل جیل ملتان،۶ا پریل۱۹۵۰ء)