خطبہ نماز عیدین کے بعد دعاثابت نہیں ہے

,

ہمارے شہر میں نماز عیدین کے خطبے کے بعد دعا مروج ہے۔ آپ وضاحت سے تحریرکریں کہ عیدین کے خطبے کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے دعاثابت ہے یا نہیں ؟ اگر ثابت نہیں ہے تو اس پر عمل کیسا ہے؟ اور ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

جواب

عیدین کے خطبے کے بعد دعاکا ثبوت تودورکی بات ہے عیدین کی نماز کے بعد بھی دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔ صحیح احادیث میں عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن نماز سے پہلے اور نماز کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال کا ذکر خاصی تفصیل سے موجود ہے۔ ان احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے نہ نماز عیدین کے بعد دعامانگی ہے اور نہ خطبے کے بعد۔ میں ذیل میں صرف صحیح بخاری سے دوحدیثیں نقل کرتاہوں۔

عن عیاض بن عبداللہ بن ابی سرح عن ابی سعید الخدری قال کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یخرج یوم الفطر والاضحیٰ الی المصلی فاول شیء یبدا بہ الصلوۃ ثم ینصرف فیقول مقابل الناس والناس جلوس  علی صفوفھم فیعطھم ویوصیھم ویامرھم فان کان یرید ان یقطع بعثا او یامربشیء امربہ ثم ینصرف         (بخاری باب الخروج الی المصلی بغیرمنبر)

’’عیاض بن عبداللہ بن ابی سرح سے روایت ہے وہ حضرت ابوسعید خدریؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر اور عیدالاضحیٰ کے دن عیدگاہ تشریف لے جاتے تھے اور وہاں آپ کا سب سے پہلا کام یہ ہوتا کہ نماز ادا کرتے پھر اس سے فارغ ہوکر لوگوں کے سامنے کھڑے ہوجاتے اس حال میں کہ لوگ اپنی صفوں پربیٹھے رہتے۔ پس آپ انھیں نصیحت کرتے اور انھیں (نیکیوں کی) ترغیب دیتے۔ پھر اگر آپ کا ارادہ کسی سمت فوج بھیجنے کا ہوتا یا کسی خاص بات کا حکم دینا ہوتا توآپ ایسا کرتے، پھر اس کے بعد واپس تشریف لے جاتے۔‘‘

اس حدیث سے معلوم ہواکہ نماز عیدین کے بعد کوئی دوسرا عمل کیے بغیر حضورؐفوراً خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے اور خطبہ دینے کے بعد واپس تشریف لے جاتے تھے۔ ہاں کبھی کبھی ایسا ہواہے کہ خطبہ ختم کرنے کے بعد حضورؐ نے عورتوں کی صفوں میں جاکر خاص طورپر ان کو نصیحت کی ہے اور صدقہ وخیرات کی ترغیب دی ہے، جیسا کہ دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتاہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے حضورؐ کے عیدگاہ تک پہنچنے کے بعد کا عمل یہ بیان کیا ہے۔

فصلی ثم خطب ثم اتی النساء ومعہ بلال فوعظھن وذکرھن وامرھن بالصدقۃ فرأیتھن یھوین باید یھن یقذ فنہ فی ثوب بلال ثم انطلق ھو وبلال الی بیتہ۔                                  (بخاری،باب العلم الذی بالمصلی)

’’پس آپؐ نے نماز پڑھی پھر خطبہ دیا۔پھر آپ عورتوں (کی صفوں ) کے پاس تشریف لے گئے اور آپ کے ساتھ بلال بھی تھے۔ پس آپ نے نصیحت کی او رصدقے کی ترغیب دی۔ پس میں نے عورتوں کو دیکھا کہ وہ بلال کے کپڑے میں (اپنی انگوٹھیاں )  ڈال رہی ہیں پھر آپ اور بلال اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔‘‘

اس حدیث میں صراحت کے ساتھ مذکورہے کہ خطبے کے بعد آپؐ نے عورتوں کو نصیحت کی اس کے بعد کوئی دوسرا کام نہیں کیا اور سیدھے اپنے گھر تشریف لے گئے۔ حضورؐ کے بعد خلفائے راشدین کے دور میں یا تابعین کے دور میں یا اس کے بعد کہیں سے بھی خطبے کے بعد دعا کا ثبوت نہیں ملتا اور یہی وجہ ہے کہ یہاں ہندوستان میں بھی ایسے علاقے کم ہی ہوں گے جہاں خطبے کے بعد دعامانگی جاتی ہو۔ رام پور آکر عمرمیں پہلی بار میں نے یہ دیکھا کہ عیدین کے خطبے کے بعد باقاعدہ دعا مانگی جاتی ہے۔ پہلی بار تو تعجب بھی ہوا تھا اوراب بھی جب ایسا ہوتا ہے انقباض محسوس کرتاہوں۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند میں بھی عیدین کے خطبے کے بعد دعا کو ناجائز لکھا ہے۔  اور دلیل یہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول یا فعل کسی سے بھی اس کا ثبوت نہیں ملتا۔

اس سلسلے میں میری رائے یہ ہے کہ جہاں اپنا کچھ اختیارہووہاں عیدین کے نمازیوں کو انتہائی نرمی کے ساتھ مسئلہ بتایا جائے۔اور اگر وہ اس خلاف سنت عمل کے ترک پر آمادہ ہوجائیں تو وہاں اس کو ترک کردیاجائے۔ اس مسئلے میں اگر کسی معمولی خلفشارکابھی اندیشہ ہوتو ترک پراصرار نہ کیا جائے اور صبر وتحمل کے ساتھ مسئلے کو واضح کرتے رہنے کی سعی کی جائے۔

عیدین کی نماز کے بعد دعا کے بارے میں بھی میری رائے یہ ہے کہ اس کو ترک کرنا چاہیے۔ لیکن اس کا معاملہ خطبے کے بعد کی دعا کے معاملے سے ہلکا ہے۔       (اپریل ۱۹۶۶ء،ج ۳۶،ش۴)