جواب
اس طرح کے استدلال جو لوگ حدیث سے کرتے ہیں وہ معلوم ہوتا ہے کہ علم سے بھی بے بہرہ ہیں اور خدا کا خوف بھی ان کے دلوں میں نہیں رہا ہے۔ نبی ﷺ کی پیشین گوئیوں سے اگر اسی طرح کااستدلال کیا جانے لگے تو انسان گمراہی کی آخری حد تک پہنچے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مثال کے طور پر ایک حدیث میں حضورﷺ نے یہ پیشین گوئی فرمائی ہے کہ مسلمان آخر کار یہودو نصاریٰ کے نقشِ قدم پر چل پڑیں گے اور جہاں جہاں انھوں نے قدم رکھا ہے یہ بھی قدم رکھیں گے،حتیٰ کہ اگر ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے زنا کیا ہوتو مسلمانوں میں بھی کوئی شخص اُٹھے گا جو اس فعل کا ارتکاب کرے گا۔اب اگر اس پیشین گوئی سے استدلال کرکے کوئی شخص یہودونصاریٰ کی پیروی شروع کردے اور کہے کہ حضورﷺ خود یہ فرما گئے ہیں ، لہٰذا آپﷺ کا یہ قول تو بہرحال ہم پر صادق آنا ہی ہے، تو ایسے شخص کے جاہل اور خوف ِ خدا سے عاری اورگمراہ ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے؟ حضورﷺنے آنے والے بدتر حالات کی جتنی خبریں بھی دی ہیں ،ان سے آپؐ کا مدعا یہ نہ تھا کہ لوگ ان حالات پر قانع ہوکر اصلاح کی کوشش چھوڑ دیں ،بلکہ اصل مدعا یہ تھا کہ لوگ پہلے سے متنبہ رہیں اور اصلاح کی فکر کریں ۔
(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۴۶ء)