جواب
آپ نے اپنے سوال میں نبی ﷺ کے ارشاد کی جو توجیہ نقل کی ہے اس میں پہلی ناقابلِ فہم بات تو یہ ہے کہ کسی معاملے میں ایک حکم دینے اور کسی قضیے کا فیصلہ کر دینے میں آخر وہ کیا باریک فرق ہے جس کی بنا پر یہ کہا گیا ہے کہ یہ امر نہ تھا بلکہ ایک قضیے کا فیصلہ تھا۔ پھر یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ حضورؐ نے خواہ انصار پر قریش کے حق خلافت کو ترجیح دی ہو یا تمام عرب و عجم پر، اس سے نفس مسئلہ زیر بحث پر آخر کیا اثر پڑتا ہے۔ لیکن ان دونوں باتوں کو تھوڑی دیر کے لیے نظرانداز کرکے اگر آپ بجاے خود اس توجیہ کا علمی جائزہ لیں تو آپ کو محسوس ہو گا کہ یہ محض ایک خانہ ساز توجیہ ہے جس کی پشت پر زعم اور ادّعا کے سوا کوئی دلیل و ثبوت نہیں ہے۔ کیا فی الواقع حدیث، سیرت اور تاریخ کے پورے ذخیرے میں کوئی شہادت اس امر کی ملتی ہے کہ حضورﷺ کے حینِ حیات انصار اور مہاجرین کے درمیان خلافت کے متعلق کوئی قضیہ پایا جاتا تھا؟
صحابہ کرام کا حال تو یہ تھا کہ وہ حضورﷺ کی وفات کا تصوّر بھی برداشت نہ کرتے تھے، کجا کہ یہ جاں نثارانِ نبی آپﷺ کے جیتے جی اپنی جگہ بیٹھ بیٹھ کر یہ سوچتے ہوں کہ آپ کی جانشینی ان میں سے کسے حاصل ہو‘ اور یہ سوچ اس حد تک پہنچ جائے کہ وہ انصار و مہاجرین کے درمیان ایک قضیے کی شکل اختیار کر گئی ہو۔ یہ ایک سراسر بے اصل بات ہے جو تاریخی ثبوت کے ادنیٰ شائبے کے بغیر گھر بیٹھے تصنیف کر ڈالی گئی ہے۔ پھر اس پر اس سے بھی زیادہ ایک ہوائی مفروضے کی عمارت یہ تعمیر کی گئی ہے کہ حضورﷺنے قریش کے استحقاقِ خلافت کے بارے میں جو کچھ بھی فرمایا اس سے مقصود دراصل اسی قضیے کا فیصلہ کرنا تھا۔ سوال یہ ہے کہ آخر کس شخص کو حضورﷺ کے اس منشا کا علم کس ذریعے سے حاصل ہو گیا؟ کیا حضورﷺ نے خود اس کی صراحت فرمائی تھی؟ یا آپ کے کلام یا اس کے متعلقات میں کوئی قرینہ ایسا پایا جاتا ہے جس سے یہ منشا مترشح ہوتا ہو؟ یا حضورﷺ کے بعد ائمۂ اہلِ علم میں سے کسی نے آپﷺ کا یہ منشا سمجھا؟ اگر ان میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو آخر اس جسارت کی کوئی حد بھی ہے کہ آدمی جس چیز کو چاہے بلا دلیل و ثبوت شارع کا منشا قرار دے بیٹھے۔
اِمامت قریش کے بارے میں آں حضورﷺکے ارشادات
احادیث میں نبی ﷺ سے کوئی ایک ہی قول اس مسئلے سے متعلق منقول نہیں ہے بلکہ حضورﷺ نے متعدد مواقع پر اسے مختلف طریقوں سے ارشاد فرمایا ہے۔ ان ارشادات کو خود دیکھ لیجیے اور بتایئے کہ ان میں کہاں اس منشا کا کوئی سراغ ملتا ہے۔
بخاری میں حضرت معاویہ ؓ کی روایت ہے کہ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ إِنَّ هَذَا الأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ لاَ يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ، إِلَّا كَبَّهُ اللَّهُ عَلَى وَجْهِهِ، مَا أَقَامُوا الدِّينَ({ FR 2225 }) ’’میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا ہے کہ یہ کام قریش میں رہے گا جو شخص بھی اس میں ان کی مخالفت کرے گا اسے اللہ اوندھے منہ آگ میں پھینک دے گا، جب تک کہ وہ دین کو قائم کرتے رہیں ۔‘‘
مُسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضورﷺ کی ایک تقریر نقل کرتے ہیں جو آپ نے قریش کو خطاب کرکے ارشاد فرمائی: أَمَّا بَعْدُ، يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، فَإِنَّكُمْ أَهْلُ هَذَا الْأَمْرِ، مَا لَمْ تَعْصُوا اللهَ، فَإِذَا عَصَيْتُمُوهُ بَعَثَ عَلَيْكُمْ مَنْ يَلْحَاكُمْ كَمَا يُلْحَى هَذَا الْقَضِيبُ({ FR 2226 }) ’’امابعد‘ اے گروہِ قریش! تم اس کام کے اہل ہو جب تک کہ اللہ کی نافرمانی نہ کرو۔ پھر اگر نافرمانی کرو گے تو اللہ تم پر کسی کو بھیجے گا جو تمھاری کھال اس طرح اتارے گا جیسے اس ٹہنی کی چھال اتار دی جائے۔‘‘
مسند احمد اور مسند ابودائود طیالسی میں حضرت ابوبرزہؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺنے فرمایا: الْأُمَرَاءُ مِنْ قُرَيْشٍ. الْأُمَرَاءُ مِنْ قُرَيْشٍ. الْأُمَرَاءُ مِنْ قُرَيْشٍ لِي عَلَيْهِمْ حَقٌّ، وَلَهُمْ عَلَيْكُمْ حَقٌّ مَا فَعَلُوا ثَلَاثًا: مَا حَكَمُوا فَعَدَلُوا، وَاسْتُرْحِمُوا فَرَحِمُوا، وَعَاهَدُوا فَوَفَوْا، فَمَنْ لَمْ يَفْعَلْ ذَلِكَ مِنْهُمْ، فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللهِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ ({ FR 2227 }) ’’ائمہ قریش میں سے ہوں گے...[میرا ان پر حق ہے اور ان کا تمھارے اوپر حق ہے] جب تک کہ وہ تین باتوں پر عمل کرتے رہیں ۔ حکم کریں تو عدل کے ساتھ کریں ۔ جب ان سے رحم طلب کیا جائے تو رحم کریں ۔ جب عہد کریں تو وفا کریں ۔ پھر جوان میں سے ایسا نہ کرے اس پر خدا اور فرشتوں اورتمام انسانوں کی لعنت۔‘‘
قریب قریب یہی مضمون اس سے ملتے جلتے الفاظ میں ان دونوں ائمہ حدیث نے حضرت انس بن مالکؓ سے بھی نقل کیا ہے۔
امام شافعی ؒ اور بیہقی ؒ نے عطا کی مرسل روایت نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے قریش کو خطاب کرکے فرمایا:
أَنْتُمْ أَوْلَى النَّاسِ بِهَذَا الْأَمْرِ مَا كُنْتُمْ مَعَ الْحَقِّ إِلَّا أَنْ تَعْدِلُوا عَنْهُ فَتَلْحَوْنَ كَمَا تَلْحَى هَذِهِ الْجَرِيدَةُ({ FR 2228 })
’’تم اس کارِ حکومت کے سب لوگوں سے زیادہ مستحق ہو جب تک کہ حق پر قائم رہو لیکن اگر حق سے منہ موڑو گے تو تمھاری کھال اس طرح کھینچی جائے گی جیسے اس ٹہنی کی چھال اتار دی جائے۔‘‘
بیہقی ، طبرانی اور شافعی نے مختلف سندوں سے حضورؐ کا یہ فرمان نقل کیا ہے کہ: قَدِّمُوا قُرَيْشًا وَلَا تَقَدَّمُوهَا({ FR 2229 })’’قریش کو آگے کرو اور ان سے آگے نہ بڑھو۔‘‘
مسند احمد میں حضرت عمرو بن العاصؓ کی روایت ہے کہ قُرَیْشٌ قَادَّۃُ النَّاسِ۔({ FR 2230 }) ’’قریش لوگوں کے قائد و راہ نما ہیں ۔‘‘
ارشاداتِ مذکورہ کا منشا
یہ تمام روایات صاف بتا رہی ہیں کہ حضورﷺنے محض اپنے فوراً بعد رونما ہونے والے کسی قضیہ خلافت کا فیصلہ نہیں فرمایا تھا بلکہ مستقل طور پر یہ طے فرما دیا تھا کہ جب تک قریش میں چند خاص صفات موجود ہیں اس وقت تک دوسروں کی بہ نسبت (چاہے ان دوسروں میں بھی یہ صفات موجود ہوں ) خلافت پر ان کا حق مرجح ہو گا۔ اس میں صرف انصار پر ترجیح کا مسئلہ نہ تھا بلکہ تمام عرب و عجم کے مسلمانوں پر اس قبیلے کی مشروط ترجیح کا فیصلہ تھا۔ یہی مطلب ان ارشادات کا تمام علماے امّت نے بالا تفاق سمجھا ہے اور تاریخ میں بجز خوارج اور معتزلہ کے کسی کا اختلاف منقول نہیں ہوا ہے۔
اِمامت قریش کے بارے میں علماے اُمت کا مسلک
عبدالقاہر بغدادی (متوفی۴۲۹ھ) اپنی مشہور کتاب اَلْـفَرقُ بَـیْنَ الفِرَقِ کی تیسری فصل میں وہ پندرہ اصول بیان کرتے ہیں جن پر گمراہ فرقوں کے مقابلے میں اہل السنت کا اتفاق ہے۔ ان میں سے بارہواں اصول ان کے بیان کے مطابق یہ ہے:
امامت کا قیام امت پر فرض و واجب ہے … اس امت میں امامت منعقد ہونے کا طریقہ اجتہاد سے کسی شخص کا انتخاب ہے۔ … اور وہ سب اس بات کے قائل ہیں کہ امامت کے لیے قرشی النسب ہونا شرط ہے۔ ({ FR 2231 })
ابن حزمؒ (متوفی ۴۵۶ھ) الفِصَل فی المِلَـلِ و الأ ھوائ و الـنَحل میں لکھتے ہیں :
اہل السنت اور تمام شیعہ اور بعض معتزلہ اور جمہور مرجـئہ کا مذہب یہ ہے کہ امامت جائز نہیں ہے مگر خصوصیت کے ساتھ قریش میں … اور تمام خوارج اور جمہور معتزلہ اور بعض مرجئہ کا مذہب یہ ہے کہ یہ منصب ہر اس شخص کے لیے جائز ہے جو کتاب و سنّت پر قائم ہوخواہ قریشی ہو یا عام عرب یا کوئی غلام زادہ۔ اور ضرار بن عمرو غطفانی کہتا ہے کہ اگر حبشی و قرشی دو شخص کتاب و سنّت پر قائم ہوں تو واجب یہ ہے کہ حبشی کو آگے کیا جائے کیونکہ بد راہ ہو جانے کی صورت میں اسے ہٹانا آسان ہے۔ (اس کے بعد ابن حزمؒ خود اپنی تحقیق بیان کرتے ہیں کہ) فہر بن مالک کی اولاد کے لیے امامت کو خاص کرنے کا وجوب ہم رسول اللہﷺ کی اس نص کی بنا پر مانتے ہیں کہ آپ نے امامت قریش ہی میں رکھنے کی ہدایت فرمائی تھی اور یہ روایت تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی ہے … اور اس روایت کی صحت پر سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ انصار نے سقیفۂ بنی ساعدہ میں اس کے آگے سر تسلیم خم کر دیا حالانکہ شہر ان کا تھا، وہ سروسامان اور تعداد رکھتے تھے اور اسلامی خدمات میں کسی سے کم نہ تھے۔ اگر رسول اللہ ﷺ کی نص سے یہ حجت قائم نہ ہو جاتی کہ اس معاملے میں دوسروں کا حق ان پر فائق ہے تو وہ اپنے اجتہاد کے مقابلے میں دوسرے کسی کا اجتہاد ماننے پر مجبور نہ تھے۔ ({ FR 2232 })
عبدالکریم شہر ستانی (متوفی ۵۴۸ھ) اپنی کتاب المِلَـل والنِّحل میں لکھتے ہیں کہ:إنَّ الْاُمَّۃَ أَجْمَعَتْ عَلٰی أَنَّھَالَاتَصْلَحُ لِغْیِرِ قُرَیْشٍ({ FR 2233 }) ’’تمام امت اس بات پر متفق ہے کہ امامت قریش کے سوا کسی کے لیے درست نہیں ہے۔‘‘
امام نَسفِی (متوفی۵۳۷ھ) عقائد نسفی میں لکھتے ہیں : اَنُ یَکُونُ مِنْ قُریْشٍ وَلَا یَجُوزُ مِنْ غَیْرِھِمْ({ FR 2234 }) ’’ضروری ہے کہ امام قریش میں سے ہو اور ان کے سوا کسی دوسرے کو امام بنانا جائز نہیں ہے۔‘‘ اس کی تشریح کرتے ہوئے علاّمہ تفتازانی شرح عقائد نسفی میں لکھتے ہیں کہ اس پر اجماع ہے اور بجز خوارج اور بعض معتزلہ کے کسی نے اس سے اختلاف نہیں کیا ہے۔
قاضی عیاضؒ (متوفی۵۴۴ھ) لکھتے ہیں کہ امامت کے لیے قریشیت کا شرط ہونا تمام علما کا مذہب ہے اور علما نے اس کو اجماعی مسائل میں شمار کیا ہے۔({ FR 2235 })
امام نوویؒ (متوفی۷۷۶ھ) شرح مسلم میں لکھتے ہیں : یہ احادیث اور اسی معنی کی دوسری احادیث اس بات پر کھلی دلیل ہیں کہ خلافت قریش کے لیے خاص ہے اور ان کے سوا کسی اور کے لیے اس کا انعقاد جائز نہیں ہے۔ اس پر صحابہ کے زمانے میں اجماع ہو چکا تھا اور اسی طرح ان کے بعد بھی یہ اجماع قائم رہا۔({ FR 2236 })
یہ تمام اکابر اہلِ علم آٹھ صدیوں تک مسلسل اس مسئلے پر امت کا اجماع نقل کرتے چلے گئے ہیں ۔ نویں صدی کے قریب پہنچ کر ابن خلدون یہ خبر دیتا ہے کہ یہ اجماع ٹوٹنا شروع ہو گیا مگر اس بنا پر نہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نص کے کوئی نئے معنی اس وقت منکشف ہونے لگے تھے بلکہ اس بنا پر کہ:
جب قریش کا اثرو اقتدار کمزور پڑ گیا اور مسلسل عیش و عشرت میں رہتے رہتے ان کی عصبیت ختم ہو گئی اور سلطنت کے معاملات نے ان کو تمام روے زمین پر منتشر کر دیا تو وہ بارِ خلافت اٹھانے سے عاجز ہو گئے اور عجمیوں کو ان پر اتنا غلبہ حاصل ہو گیا کہ تمام حل و عقد کے وہی مالک ہو گئے۔ اس وجہ سے بکثرت محققین پر ان کا معاملہ مشتبہ ہو گیا اور وہ یہ راے قائم کرنے لگے کہ اب خلافت کے لیے قرشیت کی شرط باقی نہیں رہی ہے۔({ FR 2237 })
یہی بنیاد تھی اس امر کی کہ آخر کار دسویں صدی میں علما کے ایک بڑے گروہ نے سلاطین آلِ عثمان کی خلافت تسلیم کر لی۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ آیا علماے امت نے حضورﷺکے ارشادات کو انصار و مہاجرین کے کسی قضیے کا وقتی فیصلہ سمجھا تھا یا بعض اوصاف کی شرط کے ساتھ ایک مستقل دستوری حکم۔ کیا یہ بات باور کیے جانے کے لائق ہے کہ پوری امت کے علما بالا تفاق ایک نص کا مطلب سمجھنے میں غلطی کر جائیں اور صدیوں اس غلطی میں پڑے رہیں ؟ (ترجمان القران، جولائی۱۹۵۹ئ)