جواب
قرآن میں جن چیزوں کو کھانے سے منع کیا گیا ہے اُن کی حرمت میں ممکن ہے کہ ضمناً کچھ لحاظ ان کے طبی نقصانات کا بھی ہو،مگر اصل وجہ حرمت طبی نہیں بلکہ اخلاقی اور اعتقادی ہے۔بعض چیزیں اعتقادی بنیادوں پر حرام کی گئی ہیں جیسے وَمَآ اُہِلَّ بِہٖ لِغَيْرِ اللہِ ({ FR 2241 }) (البقرہ:۱۷۳) اور بعض چیزیں اخلاقی نقصانات کی وجہ سے حرام کی گئی ہیں ،جیسے خنزیر۔ ان چیزوں کے اخلاقی نقصانات کا ہمیں پورا علم نہیں ہے، مگر کسی حد تک اپنے مشاہدات کی بنا پر ہم ان کو جان سکتے ہیں ۔مثلاً خنزیر کے متعلق دنیا کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس کا گوشت نہایت بے حیائی پیدا کرنے والا ہے۔ جو قومیں اسے کثرت سے استعمال کرتی ہیں ، ان کے اخلاقی حالات اس پر گواہ ہیں ۔ دنیا میں شاید خنزیر ہی ایک ایسا جانور ہے جس کی ایک مادہ کے گردبہت سے نر جمع ہوجاتے ہیں اور باری باری سے ایک دوسرے کے سامنے اس کے ساتھ جفتی کرتے ہیں ۔ اب آپ خود دیکھ لیں کہ بے حیائی کی یہ خاص نوعیت کن قوموں میں سب سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ جن قوموں کے آداب مجلس (etiquette) میں یہ چیز داخل ہو کہ مجلس میں ایک شخص کی بیوی لازماً دوسرے شخص کے پہلو میں بیٹھے، اور بال روم میں اپنی بیوی کے ساتھ خود ناچنا رشک وتنگ دلی کی علامت ہو اور اسے دوسروں کے ساتھ سینے سے سینہ ملاکر ناچنے کے لیے چھوڑ دینا فراخ دلی اور مروت کی دلیل سمجھی جائے،ان کے اس اخلاقی تخیل کا ماخذ اگر آپ تلاش کریں گے تو بعید نہیں کہ اس کا سراغ اس جانور کی جبلت ہی میں آپ کو مل جائے جس کا گوشت ان کے ہاں کثرت سے کھایاجاتا ہے۔اسی طرح درندہ جانوروں کے متعلق بھی ہم یہ قیاس کرسکتے ہیں کہ ان کا استعمال خون خواری پیدا کرنے والا ہے۔ بہتے ہوئے خون یا بہاے ہوئے خون کے استعمال سے بھی درندگی اور قساوت کا پیدا ہونا کچھ بعید از قیاس نہیں ہے۔ (ترجمان القرآن، ستمبر۱۹۵۱ء)