جواب
لیڈر صاحبان کا حوالہ دے کر آپ نے جو سوال کیا ہے،اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ اگر اسلامی تہذیب اسی چیز کا نام ہے جس کی پیروی یہ حضرات خود اور ان کے اتباع میں مسلمان آج کل کر رہے ہیں ، تو پھر اسلا می تہذیب اور یورپین تہذیب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پھر تو مسلمانوں کو وہ سب کچھ کرنا چاہیے جو آج کل یورپ میں ہورہا ہے۔ لیکن اگر اسلامی تہذیب اس تہذیب کا نام ہے جو محمد ﷺ نے سکھائی تھی، تو آج کل کے میڈیکل کالجوں اور نرسنگ کی تربیت گاہوں اور ہسپتالوں میں مسلمان لڑکیوں کو بھیجنے سے لاکھ درجے بہتریہ ہے کہ ان کو قبروں میں دفن کردیا جائے۔رائج الوقت گرلز کالجوں میں جاکر تعلیم حاصل کرنے اور پھر معلّمات بننے کا معاملہ بھی اس سے کچھ بہت مختلف نہیں ہے۔البتہ اگر نظامِ تعلیم وتربیت ہمارے اپنے ہاتھ میں ہو اور ہم اپنے طریقے پر لڑکیوں کو تیار کرکے ان سے تمدن کے ضروری کاموں کی خدمت لینے پر قادر ہوں تو یقیناً ہم اس کا انتظام کریں گے کہ اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے لڑکیوں کو فنِ طب، سرجری،قابلہ گری، نرسنگ اور تربیتِ اطفال کی تعلیم دیں اور ان کو دوسرے علوم وفنون کی اعلیٰ تعلیم وتربیت دے کر معلّمات بھی بنائیں اور ان سے تمدن کی دوسری مختلف ضروری خدمات بھی ایسے طریقوں پر لیں جو اسلامی تہذیب کے مطابق ہوں ۔اس سلسلے میں یہ بات بھی ضمناً لائق تصریح ہے کہ ہم مسلمان اس مغربی نظریے کے قائل نہیں ہیں کہ تیمارداری(نرسنگ) کا پیشہ عورت کے لیے مخصوص ہے اور یہ کہ زنانہ ومردانہ سب قسم کے ہسپتالوں میں نرس عورت ہی ہونی چاہیے۔ ہمارے نزدیک اس خیال کے لیے کوئی علمی اور عقلی بنیاد نہیں ہے،اور اخلاقی حیثیت سے یہ نہایت شرم ناک ہے کہ نرس خواتین سے مرد بیماروں کی تیمار داری کے وہ کام لیے جائیں جنھیں مرد تیمار دار بھی انجام دیتے ہوئے حجاب محسوس کریں ۔ اس بِنا پر ہم مسلمان لوگ اگر عورتوں کو طبی خدمات کے لیے تیار کریں گے تو عورتوں کے علاج اور تیمارداری کے لیے کریں گے نہ کہ عام طبی خدمات کے لیے۔ ہمارے نزدیک مردانہ ہسپتالوں کے لیے مرد ہی نرس ہونے چاہییں ۔ (ترجمان القرآن ، اگست ۱۹۴۶ء)