خون دینے کا مسئلہ

,

علماء ازہر (مصر) کا وہ فتویٰ آپ کی نظر سے ضرور گزرا ہوگا جس میں کہاگیا ہے کہ ایک اشتراکی کے جسم میں کسی مسلمان کا خون زندگی کو بچانے کے لیے نہیں دیاجاسکتا۔ مندرجہ بالا فتویٰ پرہمارے چند رفقا متردد ہیں ۔ اسلامی نقطۂ نظر سے اس کی حیثیت کیاہے؟ اس پر روشنی ڈال کر اس خلجان کو دور کرنے کی کوشش کیجیے۔

جواب

میں نے علماء ازہر کافتویٰ اخباروں میں پڑھاتو تھا لیکن یہ یاد نہیں کہ ان کے فتویٰ کی دلیل کیاتھی؟ ان کے فتوے سے قطع نظر نفس مسئلہ کے دوجز ہیں ۔ ایک یہ کہ جان بچانے کے لیے انسان کا خون کسی دوسرے انسان کے جسم میں داخل کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟ اور دوسرا یہ کہ کوئی مسلمان کسی غیرمسلم کی جان بچانے کے لیے اپنا خون دے سکتا ہے یا نہیں ؟ پہلے جزوکو فقہاتداوی بالمحرمات والنجاسات کے ذیل میں بیان کرتے ہیں یعنی حرام اورنجس چیزوں کو دوا کے طورپر استعمال کرنا صحیح ہے یا نہیں ؟ میں نے اس مسئلہ میں اطمینان حاصل کرنے کے لیے ازسرنو احادیث اورکتب فقہ کا مطالعہ کیا۔ دواءً شراب یا دوسری حرام چیزیں استعمال کرنے کے مسئلے میں فقہا ومحدثین نے جو بحثیں کی ہیں انھیں پڑھنے کے بعد راقم الحروف نے جو رائے قائم کی ہے وہ یہ ہے

(۱) عام حالات میں کسی حرام اور نجس چیز کو دواءً استعمال کرنا بھی جائز نہیں ہے اس لیے کہ نبی ﷺ نے شراب کو دوا میں استعمال کرنے کی خصوصی ممانعت فرمائی ہے اور عمومی طورپر تمام حرام چیزوں سے علاج کی بھی نہی فرمائی ہے۔ آپ کا ارشاد ہے لَاتَدَاوُوْا بحرام (کسی حرام چیز سے علاج معالجہ نہ کرو)۔

(۲) حالت ِ اضطرار میں یعنی جب کسی کی جان بچانے کا معاملہ پیش آجائے اور کسی حلال اور پاک ذریعہ سے جان بچنے کی توقع نہ رہے تو حرام اور نجس چیزوں کا بقدر ضرورت استعمال جائز ہے۔ اس کی ایک دلیل تویہ ہے کہ جان بچانے کے لیے اللہ نے قرآن حکیم میں حرام چیزوں کو بطورغذا استعمال کرنے کی رخصت عطا فرمائی ہے، تو ان چیزوں کو بطوردوا استعمال کرنے کی رخصت بھی اس سے نکلتی ہے۔ اس کے علاوہ دو حدیثوں سے بھی اس کی رخصت نکلتی ہے ۔ ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جس میں آپ نے قبیلہ عرینہ کے چند افراد کو پیٹ کی بیماری میں اونٹوں کا پیشاب پینے کا حکم دیا تھا۔

دوسری حدیث وہ ہے جس میں کھجلی کی بیماری سے صحت یابی کے لیے حضورؐنے حضرت زبیرؓ وحضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ کو ریشم پہننے کی اجازت دی تھی۔ زیر بحث مسئلہ بھی اسی رخصت کے تحت داخل ہے۔

مسئلے کے دوسرے جزوکاتعلق مرحمت ومواسات کے عام حکم سے جڑا ہواہے۔ عام حالات میں غیرمسلموں کے ساتھ بھی مرحمت ومواسات کا مسلمانوں کو حکم دیاگیا ہے ۔ اس لیے کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ کسی اشتراکی یا کسی کافر کی جان بچانے کے لیے کوئی مسلمان اپنا خون کیوں نہیں دے سکتا؟ انسانی اخوت وہمدردی کے میدان میں بھی مسلمان کو دوسروں سے آگے ہی ہونا چاہیے کیوں کہ دوسرے تو صرف دنیا ہی کی بھلائی اوراجر کے لیے ہمدردی کے کام کرتے ہیں اورمسلمان اجر آخرت کا بھی امیدوار ہوتاہے۔                                                          (نومبر ۱۹۶۲ء ج۲۹ش۵)