درودتاج وغیرہ

آج کل میرے ذہن میں ایک الجھن پیداہوگئی ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ درود تاج، درود لکھی اور دعا گنج العرش کی کوئی سند نہیں ہے۔یہ انگریزوں کی سازش تھی کہ انھوں نے مسلمانوں میں اس طرح کی چیزوں کو رواج دینے میں مد د کی۔ اتفاق سے میں نے ان چیزوں کامطالعہ کیا۔ مجھے تو ان میں کوئی بدعقیدگی اورخرابی نظر نہیں آئی۔ درود تاج میں دافع البلاء والوباء والقحط والمرض والالم ہے لیکن اسی کے ساتھ باذن ربہ ذی الحکم بھی ہے۔ بعض کتابوں میں یہ جملہ چھوٹ گیاہے۔ اس جملے کے بعد تویہ بات غلط معلوم نہیں ہوتی۔اسی طرح درود لکھی اور دعا گنج العرش میں بھی کوئی خرابی نظر آتی تو پھر انھیں پڑھنے میں کیا حرج ہے؟یہ بات سمجھ میں نہیں آتی۔ مہربانی کرکے میری الجھن دورکیجیے۔ ایک بار پہلے بھی میں نے آپ سے کچھ پوچھا تھا اور آپ نے جواب سے نوازاتھا۔

جواب

آپ کےاصل کا جواب دینے سے پہلے دواصولی باتیں عرض کرتاہوں، اگر آپ انھیں سامنے رکھیں تو ان شاءاللہ آپ کے ذہن کی الجھن دور ہوجائے گی۔ پہلی بات یہ کہ دین اسلام مکمل ہوچکا ہے۔ دنیا وآخرت کی فلاح اور اللہ تعالیٰ کا تقرب اوراس کی رضا حاصل کرنے کے لیے جتنی چیزیں ضروری تھیں، وہ سب بتادی گئی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ کوئی چیز چھوٹ گئی ہو۔ دوسری یہ کہ مشکوک اور مشتبہ عمل کو چھوڑ کر ہمیں یقینی اور غیرمشتبہ عمل اختیارکرنا چاہیے۔ یقینی اور غیرمشتبہ عقائد واعمال صرف قرآن کریم اور صحیح احادیث نبوی میں موجود ہیں۔ قرآن کریم کتاب ہدایت بھی ہے اورکتاب تلاوت بھی۔ اس کی تلاوت پراجرکاعالم یہ ہے کہ ہر حرف پردس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے۔ درود کی تعلیم بھی نبیﷺ نے خود دی ہے۔ پہلے آپ نے تشہد (التحیات) میں سلام کی تعلیم دی السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ اور پھر جب سورۂ احزاب کی آیت ۵۶ نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو آپ پر صلوٰۃ وسلام کا حکم دیا گیا ہے تو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے حضورؐ سے دریافت کیا کہ آپ نے ہمیں سلام کا طریقہ توبتادیا ہے، ہم آپ پر درود کس طرح سے بھیجیں ؟ ان کے سوال پر آپؐ نے وہ درودسکھایا جو ہم اور آپ نماز میں  التحیات کے بعد پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ نے درود کے دوسرے صیغے بھی سکھائے ہیں اور وہ احادیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ اب آپ خود غورکریں کہ کوئی مسلمان قرآن کریم کی تلاوت ترک کرکے یا کم کرکے اور نبیﷺ کے سکھائے ہوئے درود کو چھوڑ کر دوسروں کے بتائے ہوئے درودکیوں پڑھے؟

اب میں آپ کے سوالات کے جوابات عرض کرتاہوں۔ آپ نے درود تاج کے ایک غلط فقرے کے بارے میں لکھا ہے کہ اگر اس کے بعد باذن ربہ ذی الحکم کا جملہ بڑھادیا جائے تو اس کی قباحت دور ہوجائے گی۔ لیکن آپ نے اس پر غور نہیں کیا کہ کس دلیل کی بناپر یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اللہ نے نبی ﷺ کو بلائوں اور وبائوں کو دفع کرنے کا اختیاردے رکھاتھا؟ یہ بات نہ قرآن میں ہے نہ صحیح احادیث میں۔ گویا یہ اپنی طرف سے ایک من گھڑت بات ہے- دعا گنج العرش کانام بھی صحیح نہیں ہے۔ گنج فارسی ہے اور عرش  عربی۔ اس لیے گنج العرش کی ترکیب غلط ہے۔ درود تاج ہو یا درود لکھی یا دعائے گنج العرش اس کے پڑھنے پر جس اجر اور جن برکات وفوائد کی خبردی گئی ہے اس کی سند کیا ہے؟کسی کام کے بارے میں یہ بتانا کہ اس کے کرنے سے یہ ثواب ملے گا، یا تو اللہ کا کام ہے یا رسول کا۔قیاس سے یا اپنی عقل سے کسی کام کے بارے میں یہ کہنا کس طرح صحیح ہوگا کہ اللہ تعالیٰ اس پر اتنا اجر دے گا؟ مسلمان اسی اجر اور انھیں فوائد کےلیے جو بالکل من گھڑت ہیں درود تاج اور درود لکھی اوردعائے گنج العرش پڑھتے ہیں اور دھوکا کھاتے ہیں۔ میرا مشورہ یہ ہےکہ آپ درود تاج وغیرہ کے چکر میں نہ پڑیں اور وہی پڑھیں جس کی تعلیم اللہ اور اس کے رسول نے دی ہے۔                                          (ستمبر ۱۹۸۵ء ج۳ ش۳)