دستور کو اسلامیانے میں مشکلات اور ان کا تجزیہ

اگرچہ میں جماعت کا رکن نہیں ہوں ، تاہم اس ملک میں مغربیت کے الحادی مضرات کا جماعت جس قدر مقابلہ کررہی ہے،اس نے مجھے بہت کچھ جماعت سے وابستہ کررکھا ہے، اور اسی وابستگی کے جذبے کے تحت اپنی ناقص آرا پیش کررہا ہوں ۔ پاکستان میں دستور وانتخاب کا مسئلہ از سر نو قابل غور ہے اور نہایت احتیاط و تدبر سے کسی نتیجہ وفیصلہ پر پہنچنے کی ضرورت ہے،اس لیے کہ موجودہ دستور اپنی پوری ہیئت ترکیبی کے لحاظ سے قطعی طور پر اسلام کی حقیقی بالا دستی کو تسلیم نہیں کرتا۔کتاب وسنت سے ثابت شدہ متفق علیہ احکام کا اجراونفاذ بھی موجودہ دستو رکی رو سے لیجس لیچر او رصدر مملکت کی منظور ی کا محتاج ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ ایسی صورت میں قوانین الٰہیہ بھی انسانی آرا کی منظوری کے محتاج بن جاتے ہیں ،سخت اندیشہ ہے کہ تعبیرات کی تبدیلی سے بہت سے وہ کام جو اسلام کی نظر میں اب تک ناجائز نہیں رہے ہیں ، اس ملک کی تعزیرات میں جرائم کی فہرست میں شامل ہوجائیں ، اور بہت سے وہ کام جنھیں اسلام قطعاً پسند نہیں کرتا،مباحات کی فہرست میں داخل کردیے جائیں ۔ موجودہ دستور نے قرآ ن وسنت کو ایک طرف اسمبلی کی کثرت آرا کی منظوری وتعبیر فرمائی کا تابع بنا دیا ہے، دوسری طرف صدر مملکت کی رضا مندی اور دستخطوں کا پابند بنادیا ہے، اور تیسری طرف عدالتوں کی تشریح وتوضیح کا محتاج بنادیا ہے۔حالاں کہ پورے دستور میں صدر مملکت، ارکان وزارت،ارکان اسمبلی اور ارکان عدالت کی اسلامی اہلیت کے لیے ایک دفعہ بھی بطور شرط لازم نہیں رکھی گئی ہے اور ان کے لیے اسلامی علم وتقویٰ کے معیار کو سرے سے ضروری سمجھا ہی نہیں گیا ہے۔ایسی صورت میں اس دستور کو اسلامی دستور کہنا اور سمجھنا ہی قابل اعتراض ہے، کجا کہ اسے قبول کرنا اور قابل عمل بنانا۔ ان معروضات میں اگر کوئی وزن اور حقیقت محسوس فرمائی جائے تو میں آپ سے درخواست کروں گا کہ آپ ضرور اس پر غور فرمائیں اور ان نازک مواقع پر ملت اسلامیہ کی صحیح صحیح رہبری فرمانے سے دریغ نہ کیا جائے۔ اﷲ تعالیٰ آپ کو اسے صحیح طور پر انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے اور مسلمانوں کے دل آپ کی حمایت واعانت کے لیے کھول دے۔
جواب

آپ کے قیمتی خیالات قابل غور اور مفید مشورے لائق شکریہ ہیں ۔میں خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ جماعت سے دل چسپی رکھنے والے طبقے میں ایسے صاحب فکر لوگ موجود ہیں جو خود اپنی جگہ بھی معاملات پر غور کرتے ہیں اور اپنے مشوروں سے ہماری مدد کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے۔
آپ نے جن مسائل کی طرف توجہ دلائی ہے،ان کے متعلق ہمارا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہم اپنی تحریک خلا میں نہیں چلا رہے ہیں بلکہ واقعات کی دنیا میں چلا رہے ہیں ۔ اگر ہمارا مقصد محض اعلان واظہار حق ہوتا تو ہم ضرور صرف بے لاگ حق بات کہنے پر اکتفا کرتے۔لیکن ہمیں چوں کہ حق کو قائم بھی کرنے کی کوشش کرنی ہے اور اس کی اقامت کے لیے اسی واقعات کی دنیا میں سے راستہ نکالنا ہے،اس لیے ہمیں نظریات(idealogy)اور حکمت عملی(policy) کے درمیا ن توازن برقرار رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔آئیڈیل ازم کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے آخری مقصو د کو نہ صرف خود پیش نظر رکھیں بلکہ دنیا کو بھی اس کی طرف بلا تے اور رغبت دلاتے رہیں ۔ اور حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنے مقصود کی طرف بتدریج بڑھیں اور واقعات کی دنیا میں ہم کو جن حالات سے سابقہ ہے، ان کو اپنے مقصد کی طرف موڑنے ،اس کے لیے مفید بنانے اور مزاحمتوں کو ہٹانے کی کوشش کرتے رہیں ۔ اس غرض کے لیے ہمیں اپنے آخری مقصد کے راستے میں کچھ درمیانی مقاصد اور قریب الحصول مقاصد بھی سامنے رکھنے ہوتے ہیں ،تاکہ ا ن میں سے ایک ایک کو حاصل کرتے ہوئے ہم آگے بڑھتے جائیں ۔
مثال کے طور پر بین الاقوامی دنیا میں ہمارا آخری مقصود ایک عالم گیر مثالی ریاست ہے۔اس کے راستے میں ایک طرف مغربی استعمار اور روسی اشتراکیت بڑی عظیم رکاوٹیں ہیں ،دوسری طرف مسلمان قوموں کی موجودہ حالت بڑی رکاوٹ ہے۔ ان رکاوٹوں کو دُورکرنا ہمارے درمیانی مقاصد میں شامل ہے۔مسلمان ریاستوں کی باہمی پھوٹ، ان کا مختلف بلاکوں میں بٹ جانا، ان کے اندر وطنی نیشنل ازم کا پیدا ہونا اور ان میں لادینی نظریات پر حکومتیں قائم ہونا،یہ سب ہمارے راستے میں حائل ہیں اور ان سب سے ہمیں عہدہ برآ ہونا ہے۔اس غرض کے لیے اگر ہم کبھی کسی قریبی مقصود کے لیے کوئی بات کہیں یا کریں تو آپ کو یہ شبہہ نہ ہونا چاہیے کہ ہم نے اپنے آخری مقصود کو چھوڑ دیا ہے یا اس کے خلاف کوئی بات کی ہے۔
اسی طرح دستور اسلامی کے بارے میں جو باتیں آپ نے لکھی ہیں ، ان میں سے کوئی بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے نہ کبھی پوشیدہ تھی۔لیکن یہاں ایک کھلی کھلی لادینی ریاست کا قائم ہوجانا ہمارے مقصد کے لیے اس سے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتا جتنا اب اس نیم دینی نظام کا نقصان آپ کو نظر آرہا ہے۔ بلاشبہہ ہم نے پوری چیز حاصل نہیں کی ہے مگر کش مکش کے پہلے مرحلے میں ہم نے اتنا فائدہ ضرور حاصل کیا ہے کہ ریاست کو ایک قطعی لادینی ریاست بننے سے روک دیا ،اور اسلام کی چند ایسی بنیادی باتیں منوا لیں جن پر آگے کام کیا جاسکتاہے۔ ہم اس غلط فہمی میں نہیں ہیں کہ ہمارا مقصود حاصل ہوگیا ہے۔ہم اس مقام پر ٹھیرجانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتے۔بلکہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے،اسے مزید مقاصد کے حصول کا ذریعہ بنانا چاہتے ہیں اور اب ہم پیش قدمی کے لیے اس سے بہتر پوزیشن میں ہیں جو اس قریبی مقصد کے حاصل نہ ہونے کی صورت میں ہماری ہوتی۔ (ترجمان القرآن،جولائی۱۹۵۷ء)