دستور کی تعبیر کا حق

دستور کی تعبیر کا حق کس کو ہونا چاہیے؟ مقننہ کو یا عدلیہ کو؟ سابق میں یہ حق عدلیہ کو تھا اور موجودہ دستور میں یہ حق عدلیہ سے چھین کر مقننہ کو ہی دے دیا گیا ہے۔ا س پریہ اعتراض کیا گیا کہ عدالتوں کے اختیارات کو کم کردیا گیا ہے اور یہ حق عدلیہ کے پاس باقی رہنا چاہیے۔ اس مسئلے پر ایک صاحب نے یہ فرمایا ہے کہ اسلام کے دور اوّل میں عدالتوں کا کام صرف مقدمات کا فیصلہ کرنا تھا۔قانون کی تشریح اور تعبیر کا حق عدالتوں کو نہ تھا اور نہ عدالتیں یہ طے کرنے کی مجاز تھیں کہ قانون صحیح ہے یا غلط۔ یہ راے کہاں تک درست ہے ؟
جواب

موجودہ زمانے کے قانونی ودستوری مسائل پر اسلام کے دور اول کی نظیریں چسپاں کرنے کا رجحان آج کل بہت بڑھ گیا ہے۔ لیکن جولوگ اس طرح کے استدلال کرتے ہیں ،وہ ہمیشہ اس عظیم الشان فرق کو نظر انداز کردیتے ہیں جو اس وقت کے معاشرے اور ہمارے آج کے معاشرے میں ، اور اس وقت کے کارفرمائوں اور اس دَور کے کارفرمائوں میں فی الواقع موجود ہے۔
خلافت راشدہ میں خلیفہ خود قرآن وسنت کا بہت بڑا عالم ہوتا تھا اور اس کی متقیانہ سیرت کی وجہ سے مسلمان اس پر یہ اعتماد رکھتے تھے کہ زندگی کے کسی مسئلے میں بھی اس کا اجتہاد کبھی دین کے راستے سے منحرف نہ ہو گا۔ اس کی مجلس شوریٰ کے ارکان بھی سب کے سب بلا استثنا اس بنیاد پر رکنیت کا شرف حاصل کرتے تھے کہ وہ قوم میں سب سے زیادہ دین کے جاننے اور سمجھنے والے ہیں ۔ ان کے زمرے میں کوئی ایسا آدمی بار نہیں پاسکتا تھا جو دین سے جاہل ہو،یانفسانیت کی بِنا پر دین میں تحریف کرنے والا ہو،یا جس سے مسلمانوں کو کسی بدعت یا غیر اسلامی رجحان کا اندیشہ ہو۔ معاشرے کی عظیم اکثریت بھی اس وقت دین کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی اور کوئی شخص اس ماحول میں یہ جرأت نہ کرسکتا تھا کہ اسلام کے احکام اور اس کی روح کے خلاف کوئی حکم دے یاکوئی قاعدہ و ضابطہ جاری کردے۔ یہی بلند معیار اس وقت کی عدالتوں کا بھی تھا۔ منصب قضا پر وہ لوگ سرفراز ہوتے تھے جو قرآن وسنت میں گہری بصیرت رکھتے تھے،کمال درجے کے متقی وپرہیز گار تھے، اور قانون خداوندی سے بال برابر بھی تجاوز کرنے کے لیے تیار نہ تھے۔ ان حالات میں مقننہ اور عدلیہ کے تعلقات کی وہی نوعیت تھی جو ایسے معاشرے میں ہونی چاہیے۔تمام جج مقدمات کے فیصلے براہِ راست قرآن وسنت کے احکام کی بنیاد پر کرتے تھے اور جن امور میں اجتہاد کی ضرورت پیش آتی تھی ،ان میں بالعموم وہ خود اجتہا دکرتے تھے۔البتہ جہاں معاملات کی نوعیت اس امر کا تقاضا کرتی تھی کہ جج اپنے انفرادی اجتہاد سے فیصلہ نہ کریں بلکہ خلیفہ کی مجلس شوریٰ ا ن میں شریعت کا حکم مشخص کرے، ان کے بارے میں اجتماعی اجتہاد سے ایک ایسا ضابطہ بنادیا جاتا تھا جو دین کے اصولوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مطابقت رکھنے والا ہوسکتا تھا۔ اس نظام میں کوئی وجہ نہ تھی کہ ججوں کو مجلس شوریٰ کے بناے ہوئے قانون پر نظر ثانی کرنے کا اختیار ہوتا۔کیوں کہ وہ اگر کسی قانون کو رد کرنے کے مجاز ہوسکتے تھے تو اسی بنیاد پر تو ہوسکتے تھے کہ وہ اصل دستور(یعنی قرآن وسنت) کے خلاف ہے۔ اور قانون وہاں سرے سے کسی ایسے معاملے میں بنایا ہی نہیں جاتا تھا جس کے متعلق قرآن وسنت میں واضح حکم موجود ہو۔قانون سازی کی ضرورت صرف ان معاملات میں پیش آتی تھی جن میں نص موجود نہ ہونے کی وجہ سے اجتہاد ناگزیر ہوتا تھا۔ اور ایسے معاملات میں ظاہر ہے کہ انفرادی اجتہاد کی بہ نسبت اجتماعی اجتہاد زیادہ قابل اعتماد ہوسکتا تھا،خواہ بعض افراد کا ذاتی اجتہاد اس سے مختلف ہی کیوں نہ ہو۔
اب ظاہر ہے کہ اس وقت کی یہ دستوری نظیر آج کے حالات پر کسی طرح بھی چسپاں نہیں ہوتی۔ نہ آج کے حکمراں اور مجالس قانون ساز کے ارکان خلفاے راشدین اور ان کی مجلس شوریٰ سے کوئی نسبت رکھتے ہیں ، نہ آج کے جج اس وقت کے قاضیوں جیسے ہیں ، اور نہ اس دور کی قانون سازی ان حدود کی پابند ہے جن کی پابندی اس دور میں کی جاتی تھی۔ اس لیے اب آخر اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ ہم اپنے دستوری ضابطے اس وقت کے حالات کو سامنے رکھ کر تجویز کریں اور خلافت راشدہ کی نظیروں پر عمل شروع کرنے سے پہلے وہ حالات پیدا کرنے کی فکر کریں جن سے وہ نظیریں عملاً تعلق رکھتی تھیں ۔ موجودہ حالات میں جہاں تک شرعی معاملات کا تعلق ہے،آخری فیصلہ نہ انتظامیہ پر چھوڑا جاسکتا ہے،نہ مقننہ پر،نہ عدلیہ پر اور نہ مشاورتی کونسل پر۔ ان میں سے کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ مسلمان شرعی امو رمیں ان پر کامل اعتماد کرسکیں ۔شریعت کو مسخ کرنے والے اجتہادات سے امن میسر آنے کی کوئی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ مسلمانوں کی راے عام کو بے دار کیا جائے اور قوم بحیثیت مجموعی اس قسم کے ہر اجتہاد کی مزاحمت کے لیے تیار ہو۔ رہے عام دستوری مسائل،جن میں شریعت کوئی منفی یا مثبت احکام نہیں دیتی، ان میں مقننہ کو آخری فیصلہ کن اختیارات دے دینا بحالات موجودہ خطرے سے خالی نہیں ہے۔اس کے لیے ایک غیر جانب دارادارہ ایسا موجودہونا چاہیے جو یہ دیکھ سکے کہ مقننہ نے کوئی قانون بنانے میں دستور کے حدود سے تجاوز تو نہیں کیا ہے، اور ایسا ادارہ ظاہر ہے کہ عدلیہ ہی ہوسکتا ہے۔ (ترجمان القرآن، دسمبر۱۹۶۲ء)