آلاتِ لہو کے حامیوں کا خیال ہے کہ چوں کہ آں حضور ﷺ کے زمانے میں دف ہی ایک موسیقی کا آلہ عرب میں رائج تھا اور آپ نے اس کے استعمال کی اجازت دی ہے، لہٰذا ہمارے زمانے میں دف کی اگر متعدد ترقی یافتہ شکلیں مستعمل ہوگئی ہیں تو ان کا استعمال کیوں نہ رواہو؟
جواب
یہ محض غلط ہے کہ دف کے سوااس زمانے میں اور کوئی دوسرا آلۂ موسیقی نہ تھا۔ایران اور روم اور مصر کی تمدنی تاریخ اور خود عرب جاہلیت کی تمدنی تاریخ سے جو شخص جاہلِ محض ہو، وہی یہ بات کہہ سکتا ہے۔متعدد باجوں کے نام تو خود اشعارِ جاہلیت میں ملتے ہیں ۔ (ترجمان القرآن ، جنوری،فروری ۱۹۴۴ء)