دواؤں میں شہد کا استعمال

’’تفہیم القرآن‘‘ میں آپ نے ایک مقام پر یہ لکھا ہے کہ مسلمان اطبا دو ا سازی میں الکوہل کے بجاے شہداستعمال کرتے تھے۔نیز آپ نے وہاں یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ شہد کی مکھی کو خاص جڑی بوٹیوں سے رس حاصل کرنے کی تربیت دے کر اس سے دوا سازی میں مدد لی جاسکتی ہے۔({ FR 1555 })ترقیِ فن کے موجودہ دورمیں آپ کا شہد کو الکوہل کا بدل تجویز کرنا اور شہد کی مکھی کی تربیت کا مشورہ دینا میر ی سمجھ میں نہیں آسکاہے۔
جواب

شہد کے بارے میں میں نے تفہیم القرآن میں جو کچھ لکھا تھا،اس سے مقصود شہد اور الکوہل کا مقابلہ کرنا نہ تھا۔میرا مدعا یہ تھا کہ مسلمانوں کے ہاں فن طب کے رواج سے پہلے،جب یہ فن غیر مسلموں کے ہاتھ میں تھا،دوائوں کو محفوظ کرنے کے لیے حرام وحلا ل کی تمیز کیے بغیر ہر طرح کی چیزیں استعمال کی جاتی تھیں ۔مگر جب یہ فن مسلمانوں کے پاس آیا تو انھوں نے حلال چیزوں کی طرف توجہ کی اور دوائوں کو ان کی مفید صورت میں برقرار رکھنے کے لیے ان کے پاس ایک اہم ذریعہ شہد تھا، جو خود بھی ایک مدت تک خراب نہیں ہوتا اور اپنے اندر دوسری چیزوں کو بھی محفوظ رکھتا ہے۔ بعد میں جب یہ فن پھر ایسے لوگوں کے قبضے میں چلاگیا جو حرام وحلا ل کی تمیز سے واقف نہیں ہیں ،تو پھرحرام چیزیں آزادی کے ساتھ استعمال ہونے لگیں جن میں سے ایک نمایاں چیز یہ الکوہل ہے۔
دوسری بات جس سے آپ اتفاق نہیں کرسکے ہیں ، دو اسازی کے فن کی تمام تر ترقیات کے باوجود اس لائق ہے کہ اہل فن اس کی طرف توجہ کریں ۔میرا خیال یہ نہیں ہے کہ سب تدابیر کو چھوڑکر صرف ایک شہد کی مکھی پر انحصار کرلیا جائے، بلکہ میں یہ کہتا ہوں کہ شہد کی مکھی بھی فن دوا سازی کی ایک اچھی خاصی خادم بن سکتی ہے۔ (ترجمان القرآن، مئی،جون۱۹۵۳ء)