دوحقیقی بہنوں سے نکاح کا مسئلہ

 ایک صاحب نے ایک عورت سے نکاح کیا اور چند سال گزرجانے کے بعد اس کی حقیقی بہن سے نکاح کرلیا۔ جب کہ پہلی بہن زندہ اور ان کے عقد نکاح میں موجود ہے۔ اس مسئلہ میں سوالات یہ ہیں 

(۱)      پہلی بہن کے عقد میں رہتے ہوئے دوسری بہن سے عقد ہوایا نہیں ؟

(۲)     اگر نہیں ہوا تو دوسری بہن کو چھوڑنے کی شرعاً کیا صورت ہے؟ اوراس کو مہر دینا لازم ہوگا یا نہیں ؟

(۳)     دوسری بہن سے خلوت صحیحہ ہوجانے کی وجہ سےپہلی بہن کے عقد پرکچھ اثر پڑتا ہے یا نہیں ؟

(۴)     دوسری بہن کو چھوڑنے کی صورت میں پہلی بہن سے تجدید نکاح کی ضرورت ہے یا نہیں ؟

جواب

۱) پہلی بہن کے عقد میں رہتے ہوئے دوسری بہن سے نکاح فاسد وباطل ہے۔ کیوں کہ قرآن میں اس کو حرام قرار دیاگیا ہے۔ وَاَنْ تَجْمَعُوا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ (النساء۲۳) ’’اور دوبہنوں کو نکاح میں اکٹھا کرنا بھی حرام ہے۔‘‘

(۲) دوسری بہن کو چھوڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس کو اپنے سے الگ کردے۔ اس عورت سےبھی کہہ دے کہ میں نے تجھے چھوڑد یا۔اس لیے کہ تجھ سے نکاح نہیں ہوا اور چند ثقہ لوگوں کے سامنے بھی یہ بات دہرادے کہ اس نے عورت کو چھوڑ دیا اور اپنے سے الگ کردیا ہے۔ اس عورت کو عدت گزارنی ہوگی اور وہ مہرپانے کی مستحق ہے کیوں کہ وہ شخص اس سے مباشرت کرچکا ہے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ جو مہر مقرر ہوا ہے اوراس عورت کا جو مہر مثل ہے(یعنی اس عورت کے خاندان کی عورتوں کا عام طور سے جتنا مہر مقرر ہوتا رہاہے) ان دومیں سے جو کم ہووہی اس عورت کودیاجائے گا۔ مثال کے طورپر یوں سمجھیے کہ اگر مہر ایک ہزار روپے مقرر ہوا تھا اور مہر مثل ڈیڑھ ہزا رہے تو عورت کو مقرر شدہ مہر یعنی ایک ہزار روپے دیے جائیں گے اور اگر مہر مثل پانچ سو ہے تو عورت ایک ہزار روپے کے بجائے پانچ سو روپے کی مستحق ہوگی۔

(۳)دوسری بہن سے مباشرت کرنے کی وجہ سے پہلی بہن کا نکاح نہیں ٹوٹتا، وہ باقی رہتاہے۔

(۴) پہلی بہن کا نکاح باقی ہے اس لیے تجدید نکاح کی ضرورت نہیں ہے، لیکن جب تک دوسری بہن کی عدت ختم نہ ہوجائے اس شخص کو پہلی بہن یعنی اپنی بیوی سے مباشرت نہیں کرنی چاہیے۔ فتاویٰ عالمگیری کی یہ عبارت پڑھیے

وان تزوجھما فی عقد تین فنکاح الاخیر فاسد ویجب علیہ ان یفارقھا، وان فارقھا بعد الدخول فلھا المھر، ویجب الأقل من المسمی ومن مھر المثل، وعلیھا العدۃ ویثبت النسب، ویعتزل عن إمراتہ حتی تنقضی عدۃ اختھا۔ کذا فی محیط السرخسی

(عالمگیری ج۱ ص ۲۷۷)

’’اوراگر اس نے دوحقیقی بہنوں سے دوالگ الگ نکاح کیے تو دوسرا نکاح جو بعد کو ہوا فاسد ہے اوراس شخص پر واجب ہے کہ دوسری بہن کو الگ کردے اور اگر اس نے اس کو جماع کرنے کے بعد الگ کیا ہے تو اس کو مہر پانے کا حق ہے اور واجب ہے مقرر شدہ مہر اور مہر مثل میں سے جو کم ہو اور اس عورت پر عدت واجب ہے اور بچہ ہوگیا ہو تو نسب ثابت ہوگا۔ اور وہ شخص اپنی بیوی سے مباشرت نہ کرے جب تک اس کی بہن کی عدت پوری نہ ہوجائے۔ ایسا ہی محیط سرخسی میں لکھا ہے۔‘‘

اوپر جو جوابات دیے گئے ہیں ان پر اس عبارت میں ایک اضافہ ہے اور وہ یہ کہ اگر بچہ ہوگیا ہو تو نسب ثابت ہوگا۔ یعنی وہ شخص اس کا باپ قرار پائے گا اور وہ بچہ اسی کا ہوگا۔       (دسمبر۱۹۷۷ء ج ۵۹ ش۶)