جواب
ان حضرات سے دریافت کیجیے کہ اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّخُفْيَۃًۭ (الاعراف:۵۵) کا اگر وہی تقاضا ہے جو آپ لوگ سمجھتے ہیں تو یہ نماز کے لیے بلند آواز سے اذان، پھر علانیہ مسجدوں میں لوگوں کا مجتمع ہونا،پھر جماعت سے نماز پڑھنا، پھر نماز میں جہری قراء ت کرنا، یہ سب کچھ بھی تو پھر اس آیت کے خلاف قرار پائے گا۔نماز اصل میں تو ایک دعا ہی ہے۔اگر دعا کے لیے اِخفا ایسا ہی لازمی ہے کہ اظہار کی کوئی شکل اس میں ہونی ہی نہ چاہیے، تو ظاہر ہے کہ نماز باجماعت کی پوری صورت ہی اس کے خلاف ہے۔
پھر جو کچھ یہ حضرات فرماتے ہیں ،وہ حدیث کے بھی خلاف ہے۔حدیث میں ہم کو نبی ﷺ کی یہ ہدایت ملتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ سے جب دُعا مانگی جائے تو ہاتھ اُٹھا کر مانگی جائے اور دُعا سے فارغ ہوکر چہرے پر ہاتھ مل لیے جائیں ۔ابودائود، ترمذی اور بیہقی میں اس مضمون کی متعدد روایات موجود ہیں ۔ایک حدیث میں حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے کہ:
إِنَّ رَبَّكُمْ حَيِيٌّ كَرِيمٌ، يَسْتَحْيِي مِنْ عَبْدِهِ أَنْ يَرْفَعَ إِلَيْهِ يَدَيْهِ، فَيَرُدَّهُمَا صِفْرًا({ FR 1726 })
’’تمھارا ربّ بڑا با حیا اور کریم ہے۔بندہ جب اس کے آگے ہاتھ پھیلاتا ہے تو اسے شرم آتی ہے کہ اس کو خالی ہاتھ واپس کردے۔‘‘
دوسری روایت میں حضرت عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیﷺ جب دعا مانگتے تھے تو ہاتھ اٹھا کر مانگتے تھے اور اس کے بعد اپنے چہرے پر ہاتھ پھیر لیتے تھے۔حاکم نے مستدرک میں حضرت علیؓ کا یہ ارشادنقل کیا ہے کہ ’’دعا میں ہاتھ اٹھانا اﷲ کے آگے عاجزی اور مسکنت کے اظہار کے لیے ہے۔‘‘
اس میں شک نہیں کہ نبی ﷺکے زمانے میں یہ طریقہ رائج نہ تھا جو اَب رائج ہے کہ نماز باجماعت کے بعد امام اور مقتدی سب مل کر دعا مانگتے ہیں ۔ اس بِنا پر بعض علما نے اس طریقے کو بدعت ٹھیرایا ہے۔لیکن میں نہیں سمجھتا کہ اگر اس کو لازم نہ سمجھ لیا جائے، اور اگر نہ کرنے والے کو ملامت نہ کی جائے، اور اگر کبھی کبھی قصداًاس کو ترک بھی کردیا جائے، تو پھر اسے بدعت قرار دینے کی کیا وجہ ہوسکتی ہے۔خدا سے دُعا مانگنا بجاے خود تو کسی حال میں بُرا فعل نہیں ہوسکتا۔
(ترجمان القرآن ،مارچ،جون۱۹۴۵ء)