دین کو اپنے پاس موجود مال کی زکوٰۃ قرار دینا صحیح نہیں

اگر کوئی غریب مقروض لیا ہوا قرض واپس نہ کرسکتا ہو تو کیا وہ شخص جس کا قرض ہے اس رقم کو اپنے پاس موجود مال کی زکوٰۃ قراردے سکتا ہے؟مثلاً زید کے پچاس روپے بکرکے ذمے واجب الادا ہیں لیکن وہ ادا کرنے سے قاصرہے اور زید کے پاس جو مال ہے اس کی زکوٰۃ پچاس روپے بنتی ہے۔اب اگر وہ بکرکے ذمے اپنے پچاس روپے اس نیت سے معاف کردے کہ اس کے پاس موجود مال کی زکوٰۃ ادا ہوگئی تو کیا اس کی زکوٰۃ ادا ہوجائے گی؟

جواب

جی نہیں، اس طرح موجود مال کی زکوٰۃ ادا نہیں ہوگی۔ فقہاء نے ایک قاعدۂ کلیہ کے طورپر لکھا ہے

واداء الدین عن العین لایجوز۔کجعلہ مافی ذمہ مدیونہ زکٰوۃ لمالہ الحاضر۔                                     (درمختار وشامی)

’’اور ادائے دین عن العین جائز نہیں ہے۔ جیسے کوئی شخص اپنے مدیون کے ذمے باقی مال کواپنے پاس موجود مال کی زکوٰۃ بنائے۔‘‘

اس عبارت میں ’دین ‘ کا لفظ اس مال کے لیے استعمال کیاگیا ہے جو کسی شخص کا کسی دوسرے شخص کے ذمے باقی ہو۔ اور ’عین ‘ کا لفظ اس مال کے لیے استعمال کیا گیا ہے جوکسی شخص کے پاس موجود ہو۔ عبارت کامطلب یہ ہوا کہ کسی شخص کے ذمے جودین ہے اس کو موجود مال کی زکوٰۃ کے طورپر چھوڑدینے سے موجود مال کی زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔

البتہ اگر ایسا کیاجائے کہ مستحق زکوٰۃ مقروض کو ادائے زکوٰۃ کی نیت سے رقم دےدی جائے۔ اورپھر اس کے ذمے اپنے واجب الادا قرض کی ادائیگی کے لیے واپس لے لی جائے توزکوٰۃ بھی ادا ہوجائے گی اور قرض بھی واپس مل جائے گا۔ سوال میں جو صورت لکھی گئی ہے اسی کو سامنے رکھ کر سمجھ لیجیے۔ زید نے اپنے موجودمال کی زکوٰۃ پچاس روپے بکرکود ے دی اورپھر وہ پچاس روپے اس سے واپس لے لیے،کیوں کہ اس کے ذمے زید کے پچاس روپے باقی تھے۔ جب زید نے بکر کوادائے زکوٰۃ کی نیت سے روپے دیے اور وہ ا ن کامالک ہوگیا تو زید کی زکوٰۃ ادا ہوگئی۔ اس کے بعد بکرنے اپنے ذمے واجب الادا قرض زید کو واپس دے دیا۔           (مئی ۱۹۷۳ء، ج ۵۰،ش۵)