جواب
اس کے بعد آپﷺ نے مسلسل اپنے خطبوں میں ،بات چیت میں ،اور لوگوں سے ملاقاتوں میں یہ فرمانا شروع کیا کہ:
الْجَالِبُ مَرْزُوقٌ، وَالْمُحْتَكِرُ مَلْعُونٌ({ FR 1455 })
’’ضروریاتِ زندگی کو بازار میں لانے والا خدا سے رزق اور رحمت پاتا ہے اور ان کو روک رکھنے والا خدا کی لعنت کا مستحق ہوتا ہے۔‘‘
مَنِ احْتَكَرَ طَعَامًا أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَقَدْ بَرِیَٔ مِنَ اللَّهِ تَعَالَى، وَبَرِیَٔ اللَّهُ تَعَالَى مِنْهُ( { FR 1456 })
’’جس نے چالیس دن تک غلہ روک کر رکھا[ تاکہ قیمتیں چڑھیں ]، تو اﷲ کا اس سے اور اس کا اﷲ سے کوئی تعلق نہیں ۔‘‘
بِئْسَ الْعَبْدُ الْمُحْتَكِرُ، إِنْ أَرْخَصَ اللهُ الْأَسْعَارَ حَزِنَ، وَإِنْ أَغْلَاهَا اللهُ فَرِحَ({ FR 1457 })
’’کتنا برا ہے وہ شخص جو اشیاے ضرورت کو روک کر رکھتا ہے۔ارزانی ہوتی ہے تو اس کا دل دُکھتا ہے، گرانی بڑھتی ہے تو وہ خوش ہوتا ہے۔‘‘
مَنِ احْتَكَرَ طَعَامًا أَربَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ تَصَدَّقَ بِهِ لَمْ يَكُنْ كَفَّارَةً لَهُ({ FR 1458 })
’’جس نے چالیس دن تک غلے کوروک رکھا، پھر اگر وہ اس غلّے کو خیرات بھی کردے تو اس گناہ کی تلافی نہ ہوگی جو ان چالیس دنوں کے دوران میں کرچکا ہے۔‘‘
اس طرح نبیﷺ احتکار کے خلاف مسلسل تبلیغ وتلقین فرماتے رہے، یہاں تک کہ تاجروں کے نفس کی اصلاح خودبخود ہوگئی اور جو ذخیرے روکے گئے تھے، وہ سب بازار میں آگئے۔
یہ شان ہے اس حکمراں کی جس کی حکومت اخلاق فاضلہ کی بنیادوں پر قائم ہو۔اس کی اصل قوت پولیس اور عدالت اور کنٹرول اور آرڈی نینس نہیں ہوتے، بلکہ وہ انسانوں کے قلب وروح کی تہوں میں برائی کی جڑوں کا استیصال کرتا ہے،نیتوں کی اصلاح کرتا ہے، خیالات اور ذہنیتیں بدلتا ہے، معیارِ قدربدلتا ہے اورلوگوں سے رضاکارانہ اپنے ان احکام کی پابندی کراتا ہے جو بجاے خود صحیح اخلاقی بنیادوں پر مبنی ہوتے ہیں ۔برعکس اس کے یہ دنیوی حکام،جن کی اپنی نیتیں درست نہیں ہیں ،جن کے اپنے اخلاق فاسد ہیں ،اور جن کی حکمرانی کے لیے جابرانہ تسلط کے سوا کوئی دوسری بنیادبھی موجود نہیں ہے،انھیں جب کبھی اس طرح کے حالات سے سابقہ پیش آتا ہے جیسے آج کل درپیش ہیں ،تو یہ سارا کام جبر سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ا ور اخلاق کی اصلاح کرنے کے بجاے عامۃ الناس کے اخلاقی بگاڑمیں جو تھوڑی بہت کسررہ گئی ہے ،اسے بھی پورا کرکے چھوڑتے ہیں ۔ (ترجمان القرآن ، جولائی اکتوبر ۱۹۴۴ء)