جواب
یہ قصہ کہ رسول اﷲﷺ کا جنازہ بے گور وکفن پڑا تھا اور صحابۂ کرامؓ،حضور ﷺ کی تجہیز و تکفین کی فکر چھوڑ کر خلافت کی فکر میں پڑ گئے ،درحقیقت بالکل ہی بے سروپا داستان ہے۔ اصل واقعات یہ ہیں کہ حضور ﷺ کی وفات پیر کے روز شام کے قریب ہوئی۔بخاری ومسلم میں حضور ﷺ کے خادم خاص انس بن مالکؓ نے آخر یوم کا لفظ استعمال کیا ہے۔({ FR 1677 }) جس سے یہی سمجھا جاسکتا ہے کہ یہ سانحۂ عظیم عصر ومغرب کے درمیان پیش آیا تھا۔ فطری بات ہے کہ اس سے پوری جماعت اہل ایمان کے ہوش پراگندہ ہوجانے چاہییں تھے۔ چنانچہ یہی ہوا۔ حضرت عمرؓ کوتو یہی یقین نہ آتا تھا کہ سرور عالمؐ واقعی وفات پا گئے ہیں ۔
حضرت ابوبکرؓ نے آکرجب تقریر کی تو لوگوں کو پوری طرح یقین ہوا کہ وہ ناگزیر بات جو پیش آنی تھی، پیش آچکی ہے۔ اتنے میں رات آ گئی۔ یہ ممکن اور مناسب نہ تھا کہ راتوں رات تجہیز وتکفین کرکے حضور ﷺ کو دفن کردیا جاتا۔ کیوں کہ جنازے میں شرکت کی سعادت سے محروم رہ جانا ان ہزاروں مسلمانوں کو ناگوارہوتا جو مدینۂ طیبہ اور اس کی نواحی بستیوں میں رہتے تھے۔ لازماً ان کو شکایت ہوتی کہ آپ لوگوں نے ہمیں آخری دیدار اور نماز جنازہ کا موقع بھی نہ دیا۔ اس لیے رات بہرحال گزارنی تھی۔
اس رات صحابہ ؓ کے مختلف گروہ اپنی اپنی جگہ جمع ہوکر سوچ رہے تھے کہ اب کیا ہوگا۔ازواج مطہرات حضرت عائشہؓ کے ہاں گریہ وزاری میں مشغول تھیں جہاں حضورؐ نے وفات پائی تھی۔حضرت علیؓ،حضرت زبیرؓ، حضرت طلحہ ؓ،اور دوسرے قرابت داران رسول علیہ الصلاۃ والسلام سیّدہ حضرت فاطمۃ الزہراءؓ کے گھر میں جمع تھے۔ مہاجرین کی ایک اچھی خاصی تعداد حضرت ابوبکرؓ کے پاس غم گین ومتفکر بیٹھی تھی۔
انصار کے مختلف گروہ اپنے اپنے قبیلوں کی چوپالوں ( سقیفہ کے اصل معنی چوپال ہی کے ہیں ) میں اکٹھے ہورہے تھے۔ اتنے میں کسی نے آکر خبر دی کہ بنی ساعدہ کی چوپال میں انصار کا ایک بڑا گروہ جمع ہے اور وہاں رسول اﷲﷺ کی جانشینی کا مسئلہ چھڑ گیا ہے۔ حضرات ابوبکر ؓ، عمرؓ اور ابوعبیدہ بن الجراحؓ، جو حضورﷺ کے بعد مسلمانوں کی جماعت میں ’’بڑے‘‘ (senior) سمجھے اور مانے جاتے تھے،یہ خبر سن کر فکر مند ہوئے کہ ابھی سردار ملت کی آنکھ بند ہوئی ہے، ساری امت اس وقت بے سر ہے، کہیں ایسا نہ ہو کہ کوئی بڑا فتنہ کھڑا ہوجائے اور جماعت کا نظم ازسر نو قائم ہونے سے پہلے ہی بدنظمی اپنے قدم جمالے۔ اس لیے یہ تینوں حضرات فوراً برسر موقع پہنچ گئے اور راتوں رات انھوں نے حضور ﷺ کی جانشینی کے مسئلے کو، جو ایک فتنہ خیز صورت میں طے ہوا چاہتا تھا،اس صحیح شکل میں سلجھا لیا جس کے صحیح ہونے پر تاریخ اپنی مہر تصدیق ثبت کرچکی ہے۔یہ سارا واقعہ اسی رات کا ہے جس کی شام کو حضورﷺ کی وفات ہوئی تھی۔ رات کو بہرحال حضور ﷺکی تجہیز وتکفین نہیں کرنی تھی جس کی مصلحت اوپر بیان کی جاچکی ہے۔اسی رات خلافت کا مسئلہ طے کیا گیا۔ صبح سویرے مسجد نبوی میں حضرت ابوبکرؓ کی خلافت کا اعلان ہوا۔ مہاجرین وانصار سب نے اسے قبول کرکے جماعت کا نظام بحال کردیا اور اس کے بعد بلاتاخیر حضورﷺ کی تجہیز وتکفین کا کام شروع ہوگیا۔
یہ کہنا بالکل ہی خلاف واقعہ ہے کہ صحابہ کرامؓ اپنی خلافت کی فکر میں لگے رہے اور حضورﷺ کی تجہیز وتکفین بس آپ کے اہل بیت نے کی ۔یہ تجہیز وتکفین کسی نے بھی پیر اور منگل کی درمیانی شب میں نہ کی تھی۔ اس کا آغاز منگل کی صبح کو اس وقت ہوا ہے جب کہ حضرت ابوبکرؓ کی بیعت ہوچکی تھی۔ اور یہ کام حضرت عائشہؓ کے حجرے میں ہوا ہے جس کا ایک دروازہ اسی مسجد نبوی میں کھلتا تھا جہاں مدینہ طیبہ کے سارے صحابہ جمع تھے، جہاں گردو نواح کے لوگ وفات کی خبر سن سن کر چلے آرہے تھے، اور جہاں حضرت ابوبکرؓ کے ہاتھ پربیعت کی گئی تھی۔ جن لوگوں کو کبھی مسجد نبوی کی زیارت کا شرف حاصل ہوا ہے اور جنھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ حجرۂ حضرت عائشہ (جس میں سرکار مدفون ہیں ) اور مسجد نبوی کا مکانی تعلق کیا ہے، وہ یہ بات سن کر ہنس دیں گے کہ صحابہ مسجد نبوی میں اپنی خلافت کی فکر میں لگے ہوئے تھے اور بے چارے اہل بیت حجرۂ عائشہ ؓ میں حضور ﷺ کی تجہیز وتکفین کررہے تھے۔غلط بات تصنیف کرنی بھی ہو تو اس کے لیے بھی کم ازکم کچھ سلیقہ تو چاہیے ۔
یہ بات کہ حضور ﷺ کو غسل وکفن صرف آپؐ کے اہل بیت نے دیا،یہ بھی خلاف واقعہ ہے۔اس خدمت کو انجام دینے والے حضرت علیؓ، حضرت عباسؓ، فضل بن عباسؓ، قثم بن عباسؓ، اسامہ بن زید ؓاور شُقرانؓ(حضور ﷺکے آزاد کردہ غلام ) تھے، اور انھوں نے اس خیال سے حجرے کا دروازہ بند رکھا تھا کہ لوگوں کا ہجوم باہر زیارت کے لیے بے چین کھڑا تھا۔ اگر دروازہ کھلا رہنے دیا جاتا تو اندیشہ تھا کہ زیادہ لوگ اندر آجائیں گے اور کام کرنا مشکل ہوجائے گا۔ پھر بھی انصار نے جب شور مچایا کہ ہمیں بھی تو اس سعادت میں حصہ ملنا چاہیے، تو ان میں سے ایک صاحب(اوس بن خولی) کو اندر بلا لیا گیا۔ کفن پہنانے کے بعد سوال پیدا ہوا کہ حضور ﷺ کے لیے قبر کہاں تیار کی جائے۔حضرت ابوبکر ؓ نے حدیث پیش کی کہ مَا قُبِضَ نَبِیٌّ اِلَّا دُفِنَ حَیْثُ یُقْبَضُ({ FR 1678 })(نبی کا انتقال جہاں ہوتا ہے ،وہیں اس کو دفن کیا جاتا ہے)او ر اسی پر فیصلہ ہوا کہ حجرۂ عائشہ ؓ ہی میں آپؐ کے لیے قبر تیار کی جائے۔ حضرت ابو طلحہ زیدؓ بن سہل انصاری نے قبر کھودی۔ پھر لوگوں نے گروہ در گروہ اندر جاکر نماز جنازہ پڑھنی شروع کی اوررات تک مسلسل یہ سلسلہ چلتا رہا، حتیٰ کہ منگل اور بدھ کی درمیانی رات کو نصف شب کے قریب دفن کی نوبت آئی۔معلوم نہیں کہ اس پوری مدت میں آخر وہ کون سا وقت تھا جب صرف حضورﷺکے اہل بیت بے یارومددگار آپ ؐ کے جسد اطہر کو لیے بیٹھے رہے اور صحابۂ کرامؓ اپنی خلافت کی فکر میں مشغول رہے؟ ({ FR 1679 }) (ترجمان القرآن، نومبر ۱۹۵۸ء)