جواب
یہ امر کہ حضور ﷺ کی کون سی بات ظن یا ذاتی راے پر مبنی ہے اور کون سی اﷲ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم پر، اس کا اظہار بسا اوقات حضور ﷺ کی اپنی تصریحات سے ہوجاتا ہے، اور بسا اوقات دوسرے قرائن اس پر دلالت کرتے ہیں ۔ مثلاً جو احادیث دجّال کے متعلق وارد ہوئی ہیں ، ان میں یہ بات حضور ﷺ کی اپنی ہی تصریحات سے معلوم ہوتی ہے کہ آپ کو اس کے مقام ،زمانے اور شخصیت کے متعلق اﷲ تعالیٰ کی طرف سے علم نہیں دیا گیا تھا۔ ابن صیاد کے متعلق آپ کو اتنا قوی شبہہ تھا کہ حضرت عمرؓ نے آپ کی موجودگی میں قسم کھا کر اسے دجّال قرار دیا اور آپؐ نے اس کی تردید نہ کی ،مگر جب انھوں نے اس کے قتل کی اجازت مانگی تو آپؐ نے فرمایا:
إِنْ يَكُنْهُ فَلَنْ تُسَلَّطَ عَلَيْهِ وَإِنْ لَمْ يَكُنْهُ فَلَا خَيْرَ لَكَ فِي قَتْلِهِ({ FR 1853 })
’’اگر یہ وہی ہے تو تم اس پر قابو نہ پاسکو گے اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو اس کے قتل میں تمھارے لیے کوئی بھلائی نہیں ۔‘‘
ایک اور حدیث میں حضورﷺ نے دجّال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
إِنْ يَخْرُجْ وَأَنَا فِيكُمْ فَأَنَا حَجِيجُهُ دُونَكُمْ، وَإِنْ يَخْرُجْ وَلَسْتُ فِيكُمْ فَامْرُؤٌ حَجِيجُ نَفْسِهِ،وَاللَّهُ خَلِيفَتِي عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ({ FR 1855 })
’’ اگر وہ میری موجودگی میں نکلے تو تمھاری طرف سے میں اس کا مقابلہ کروں گا،اور اگر وہ ایسے زمانے میں نکلے جب میں تمھارے درمیان موجود نہ ہوں تو ہر آدمی اپنی طرف سے خود ہی اس کا مقابلہ کرے اور اﷲ میرے پیچھے ہر مسلم کا نگہبان ہے۔‘‘
تمیم داری نے اپنے ایک بحری سفر میں دجّال سے اپنی ملاقات کا قصہ جب آپﷺ کو سنایا تواس کی بھی آپؐ نے تصدیق یا تکذیب نہیں فرمائی بلکہ یہ فرمایاکہ:
فَاِنّہ أَعْجَبَنِي حَدِيثُ تَمِيمٍ أَنَّهُ وَافَقَ الَّذِي كُنْتُ أُحَدِّثُكُمْ عَنْهُ({ FR 1856 })
’’مجھے تمیم کا بیان پسند آیا،وہ موافقت رکھتا ہے اس بات سے جو میں دجّال کے متعلق تم سے بیان کرتا تھا۔‘‘
پھر آپؐ نے اس پر مزید اضافہ کرتے ہوئے فرمایا:
أَلَا إِنَّهُ فِي بَحْرِ الشَّأْمِ أَوْ بَحْرِ الْيَمَنِ لَا بَلْ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ({ FR 1857 })
’’ مگر وہ بحر شام یا بحر یمن میں ہے۔نہیں بلکہ وہ مشرق کی جانب ہے۔‘‘
یہ سب روایات اپنا مفہوم خود واضح کررہی ہیں ۔
]اس[ سوال میں آپ نے ایک بڑی سخت بات کہی ہے ۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ایسی بات کہنے سے پہلے کتاب وسنت سے اس کی تحقیق کرلیتے۔ قرآن مجید حضرت یونس ؑ کے متعلق کہتا ہے:
وَذَا النُّوْنِ اِذْ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَّقْدِرَ عَلَيْہِ (الانبیاء:۸۷)
’’اورمچھلی والا جب کہ وہ غصے میں آ کر چلاگیا اور اس نے گمان کیا کہ ہم اس پر گرفت نہ کریں گے۔‘‘
یہاں ایک نبی کے لیے اﷲ تعالیٰ خود ظن کا لفظ استعمال کررہا ہے اور یہ بھی اﷲ تعالیٰ ہی نے قرآن مجید میں بتادیا ہے کہ ان کا یہ ظن صحیح نہ تھا۔
صحیح مسلم میں کتاب الفضائل کے تحت ایک مستقل باب ہے جس کا عنوان ہے: بَابُ وُجُوبِ اِمتِثَالِ مَا قَالَہُ شَرْعًا دُوْنَ مَا ذَکَرَہُ مِنْ مَعَایِشِ الدُّنْیَا عَلَی سَبِیْلِ الرَّأیِ({ FR 1858 }) ’’ با ب اس امر کے بیان میں کہ نبیﷺ نے شرعی طریقے پر جو کچھ فرمایا ہو، اس کا امتثال واجب ہے نہ کہ اس بات کا جسے آپ نے دنیوی معاملات میں اپنی راے کے طور پر بیان کیا ہو۔‘‘ اس باب میں امام موصوف حضرت طلحہؓ، حضرت رافع بن خدیجؓ، حضرت عائشہؓ اور حضرت انسؓ کے حوالے سے یہ قصہ نقل کرتے ہیں کہ جب حضورﷺ مدینے تشریف لائے تو آپؐ نے دیکھا کہ اہل مدینہ مادہ کھجور میں نر کھجور کا پیوند لگاتے ہیں ۔
آپؐ نے فرمایا: مَاأَظَنُّ یُغْنِی ذَ لِکَ شَیْئًا۔({ FR 1859 }) ’’میں نہیں سمجھتا کہ اس کا کوئی فائدہ ہے۔‘‘
لَعَلَّکُم لَوْلَمْ تَفْعَلُوا کَانَ خَیْرًا۔({ FR 1860 }) ’’اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید اچھا ہو۔‘‘
لوگو ں نے سنا تو ایسا کرنا چھوڑ دیا،مگر اس سال پھل اچھا نہ آیا۔ اس پر آپﷺ نے فرمایا:
إِنْ كَانَ يَنْفَعُهُمْ ذَلِكَ فَلْيَصْنَعُوهُ، فَإِنِّي إِنَّمَا ظَنَنْتُ ظَنًّا فَلَا تُؤَاخِذُونِي بِالظَّنِّ، وَلَكِنْ إِذَا حَدَّثْتُكُمْ عَنِ اللَّهِ شَيْئًا فَخُذُوا بِهِ فَإِنِّي لَنْ أَكْذِبَ عَلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ({ FR 1861 })
’’اگر لوگوں کو یہ کام نفع دیتا ہے تو وہ ضرور اسے کریں ۔میں نے توظن کی بنا پر ایک بات کہی تھی۔تم ظن پر مجھ سے مؤاخذہ نہ کرو۔ البتہ جب میں اﷲ کی طرف سے کوئی بات تم سے کہوں تو اسے لے لو کیوں کہ میں اﷲ پر کبھی جھوٹ نہیں بولا ہوں ۔‘‘
یہ اﷲ کے رسول کی اپنی تصریح ہے،اور اوپر اﷲ تعالیٰ کی تصریح بھی آپ دیکھ چکے ہیں ۔اب آپ خود فیصلہ فرمائیں کہ آپ کا نظریہ صحیح ہے یا اﷲ اور اس کے رسول کا بیان؟ ( ترجمان القرآن ،جنوری ۱۹۵۹ء)