ایک زمین خریدی گئی ہے، جس کا مقصد وہاں دعوہ سینٹر، میٹر نٹی ہاسپٹل اور دیگر رفاہی کام انجام دینا ہے۔ تین چار کروڑ روپے کا پروجکٹ ہے۔ اس کی تکمیل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے۔ کمیٹی کی میٹنگ میں بعض ارکان کی طرف سے یہ بات کہی گئی کہ پیسہ صرف حلال کمائی کرنے والوں سے ہی لیا جائے۔ جن افراد کا پیسہ غلط طریقوں سے کمایا گیا ہو، ان سے پیسہ نہ لیا جائے۔
براہِ کرم رہ نمائی فرمائیں۔ کیا یہ شرط طے کرنا درست ہے، یا آنکھ بند کرکے ہر ایک سے چندہ لیا جا سکتا ہے؟ اسی طرح یہ بھی بتائیں کہ کیا وطنی بھائیوں سے بھی اس پروجکٹ میں مالی تعاون لیا جا سکتا ہے؟
جواب
یہ بات درست ہے کہ دینی، دعوتی یا رفاہی کاموں کے لیے کوئی پروجکٹ شروع کیا جائے تو کوشش کرنی چاہیے کہ اس میں صرف حلال پیسہ ہی لگے۔ یہ رویہ صحیح نہیں کہ پروجکٹ بڑا ہو تو ہر طرف سے، ہر طرح کا پیسہ، چاہے وہ حلال ہو یا حرام طریقے سے کمایا گیا ہو، جمع کرنے کی کوشش کی جائے۔
لیکن اس معاملے میں بہت زیادہ کھود کرید بھی نہیں کرنی چاہیے کہ چندہ دینے والے ہر شخص سے دریافت کیا جائے کہ تمھاری کمائی کیسی ہے؟ اور کیا تم یہ چندہ اپنی حلال کمائی سے دے رہے ہو؟ عام حالات میں مسلمان چندہ دہندگان سے حسن ظن رکھنا چاہیے کہ وہ دینی اور رفاہی کاموں میں اپنی حلال کمائی ہی لگائیں گے۔ البتہ اگر کسی شخص کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ اس کا پورا کاروبار ناجائز چیزوں کا ہے اور اس کی پوری کمائی حرام ہے تو اس سے مالی تعاون لینے سے گریز کرنا چاہیے۔ اسی طرح اگر کوئی شخص یہ بتاکر دے کہ یہ رقم فلاں حرام مد کی ہے، تو اسے بھی نہیں لینا چاہیے۔
مذکورہ بالا احتیاط کے ساتھ دینی اور رفاہی کاموں میں برادرانِ وطن سے بھی مالی تعاون قبول کیا جا سکتا ہے۔ فقہا نے یہاں تک لکھا ہے کہ برادرانِ وطن میں سے کوئی شخص اگر اپنی خوشی سے مسجد کی تعمیر میں اپنی طرف سے کچھ مالی تعاون کرنا چاہتا ہے تو اسے قبول کیا جا سکتا ہے۔